آرٹ اینڈ کلچرپاکستان

رنگوں سے کائنات بنانے والے دیسی پیکاسو

ڈاکٹر عمیرہ خان کی کتاب کی لندن میں تقریب رونمائی

رنگوں سے کائنات بنانے والے دیسی پیکاسو
 
 
ڈاکٹر عمیرہ خان کی کتاب کی لندن میں تقریب رونمائی
 
لکھا ہوا لفظ اس وقت معنی دیتا ہے جب پڑھنے یا سننے والے کے ذہن میں اس کی کوئی تصویر موجود ہو کیونکہ جانداروں کا ذہن بنانے والے نے اسے تصویری بنایا ہے,حروفی نہیں۔اس لیے لفظ شیر کہنے سے ہمارے دماغ میں شیر کی تصویر ابھرتی ہے کیونکہ ہم شیر کی تصویر اپنے دماغوں میں پہلے سے رکھتے ہیں لیکن لفظ خدا, اللہ, ایشور, گاڈ یا پرماتما کہنے سے ہمارے دماغوں میں کوئی تصویر نہیں بنتی کیونکہ ہمارے ذہن میں اس کی کوئی متفقہ تصویر موجود نہیں ہے شاید اسی لیے خدا کی لڑائی ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور نا ہی کبھی ختم ہوگی جبکہ وہ شئے جو تصویر رکھتی ہے اس پر کسی دو افراد کا کوئی اختلاف رائے نہیں۔ہمارے عہد میں فنون لطیفہ کی جو بے قدری ہو رہی ہے یا پھر فنون لطیفہ کی کسی شاخ سے وابستہ تخلیق کار کو جس ہزیمت, شرمندگی یا معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ اصل میں اس فن سے لاعلمی سے ہے اور جب کوئی آپ کوئی فون لطیفہ کی قدر کرتا نظر آئے تو جان لیں کہ اس کی تخلیق ہی انسانی تخلیق کے بعد بچ جانے والی مٹی سے ہوئی ہے۔ اس کی مجسمہ سازی میں کوئی دوسری مٹی استعمال کرنے سے اس کے خالق نے اجتناب برتا ہے۔ محترمہ ڈاکٹر عمیرہ خان صاحبہ بھی فنون لطیفہ کی قدر دان ہیں۔
ڈاکٹر عمیرہ خان سکالر، فنکارہ، اور پروفیسر بھی ہیں۔فائن آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری کرنے کے بعد صادیقین کی پینٹنگ پر پی ایچ ڈی مکمل کی-
انہوں نے تصویر(پینٹنگ) بنانے والے دیسی پیکاسو Sadequainکے فن پاروں پر تحقیق کی اور ان کی تخلیق کو الفاظ میں ڈھال کر ایک دیدہ زیب کتاب The Ceiling of Gallery Sadequain کے عنوان سے پیش کی ہے۔ دراصل تصویر اور الفاظ کا رشتہ ایسا ہی جو دھڑکن اور نبض کا ہے۔ ڈاکٹر عمیرہ خان صاحبہ اس لحاظ سے نبض شناس ہیں انہوں نے Sadequainکی تخلیق کو دھڑکن فراہم کی۔تحقیق اور تخلیق میں سب سے خوبصورت فرق یہ ہے کہ تحقیق کبھی مکمل نہیں ہوتی اور تخلیق کبھی ادھوری نہیں ہو سکتی۔ایک شاعر اگر ایک مصرعہ کہہ کر مر جائے تو دوسرا کوئی شاعر اسے اسی سوچ و فکر کے ساتھ مکمل نہیں کرسکتا بالکل اسی طرح اگر کو ئی مصور اپنا شاہکار بناتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے تو اسکے ادھورے تصور کو مکمل تخلیق تسلیم کیا جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ Sadequainکے آخری اور نامکمل فن پارے کو بھی اسی حالت میں رہنے دیا گیا۔
 
شیکسپیئر کے دیس برطانیہ میں جمعہ کی شب فیض کلچر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام وسطی لندن میں ڈاکٹر عمیرہ خان کی کتاب کی ایک پر وقار تقریب رونمائی ہوئی جس میں فون لطیفہ کے قدردانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔محترمہ پلوشہ بنگش نے نظامت کے فرائض سر انجام دئیے۔فیض کلچر فاؤنڈیشن کے بانی رکن و شاعر محترم جناب ایوب اولیاء نے کتاب پر اپنی رائے دینے کیساتھ Sadequainکے ساتھ ہونے والی ملاقات میں پیش آنے والے چند دلچسپ واقعات کا بھی ذکر کیا, اس کے علاوہ پیبلو پیکاسو کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی ایک نظم بھی پیش کی۔دی لائٹ نیوز پپیر کے ایڈیٹر, پولیٹیکل کاٹونسٹ اور ڈیزائنرجناب ندیم مرزا نے بتایا کہ مصنفہ ان کی کلاس فیلو بھی رہی ہیں۔انہوں نے مصنفہ کی کامیابی کا سہرا انکے مرحوم شوہر کے سر رکھا۔ کیونکہ دوران تعلیم بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ دیگر امور میں مرحوم شوہر نے کافی معاونت کی تھی۔اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اس موقع پر ضرور فخر محسوس کرتے۔مقررین میں مصنفہ کی قریبی دوست محترمہ واندہ شیخ Wanda Fajardo Sheikhنے بھی حاظرین کو بتا یا کہ کن مراحل سے گزر کر یہ کتاب مکمل ہوئی۔
ڈاکٹر عمیرہ صاحبہ نے کتاب اور Sadequainکے فن کے متعلق تفصیلی گفتگو کی جس کے بعد حاظرین نے ان سے کتاب کے متعلق سوالات بھی کیے۔پروگرام کے اختتام پر فیض کلچر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر محترم جناب عاصم علی شاہ صاحب نے بتایا کہ Sadequainترقی پسند وں کے بہترین دوست بھی تھے اور کئی مواقع پر انہوں نے اپنی تخلیقی مہارت سے دوستی کا حق ادا بھی کیا۔ عاصم علی شاہ صاحب نے تمام مہمانوں کو شارٹ نوٹس پر ورکنگ ڈے کے باوجود پروگرام میں شامل ہوکر رونق بخشنے پر تہہ دل سے شکریہ ادا بھی کیا۔
 
قلم کا مزدور, ادب اور صحافت کا طالب علم ہونے کے ناطے ان گنت کتابوں کی رونمائی میں شرکت کی ہے۔ اس کتاب کی رونمائی میں انفرادیت یہ تھی کہ کتاب ایک فنکار کی تحقیق کو خر اج تحسین پیش کرنے کے لیے انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ کسی مصور کے شاہکار کو عام فہم زبان میں ایک کتاب میں بیان کرنا یقینا ایک قابل ستائش فعل ہے جس کے لیے محترمہ ڈاکٹر عمیرہ کو سیلوٹ پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ کاش! ادب کا ادب کرتے ہوئے اس کتاب کی رونمائی پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ہوتی مگر بدقسمتی سے ہماری سرکاری ترجیحات میں ادب اور فون لطیفہ جیسی صحت مند سرگرمیوں کا سرکاری سرپرستی میں فروغ دینا شامل نہیں۔
 
رنگوں سے کائنات بنانی پڑی مجھے
خوشبو سے تیری ذات چرانی پڑی مجھے
 
تحریر: سہیل احمد لون
 
سربٹن۔ سرے
DR. UMAIRA HUSSAIN KHAN

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button