پاکستان

مکمل تخلیق کی ادھوری تحقیق

قازقستان میں آرٹ, کلچر اور فلم فیسٹیول

تحقیق اور تخلیق میں سب سے خوبصورت فرق یہ ہے کہ تخقیق کبھی مکمل نہیں ہوتی اور تخلیق کبھی ادھوری نہیں ہوسکتی۔ ایک شاعر اگر ایک مصرعہ کہہ کرمرجائے تو دوسرا کوئی شاعراُسے مکمل نہیں کرسکتا بالکل اسی طرح جیسے اگر کوئی مصور اپنا شاہکار بناتے ہوئے دینا سے رخصت ہوجائے تو اُس ادھوری تصورکو مکمل تخلیق تسلیم کیا جائے گا۔جب ہم حروف تہجی جوڑ کر لکھنا اور پڑھنا شروع کردیتے ہیں تو ہم صاحب تعلیم ہو جاتے ہیں اور صاحب تعلیم ہونے کے بعدجب ہم دو چار سو کتابیں پڑھتے ہیں تو صاحب معلومات کہلاتے ہیں لیکن جب ہم ایک ایسی بات کرتے ہیں ٗ یا ایسی دھن تیار کرتے ہیں یا ایسی تصویر بناتے ہیں یا ایسا مجسمہ تخلیق کرتے ہیں جو ہم سے پہلے زمین پر موجود نہیں تھا تو ہم صاحب علم ہو جاتے ہیں جس سے معلوم پڑتا ہے کہ علم صرف تخلیق کا نام ہے کیونکہ ارسطو ٗ سقراط ٗبقراط ٗچانیکہ ٗفارابی ٗ ابن رشد یا دینا کے کسی دوسرے فلاسفر کا بتایا ہوا جب میں کسی کو بتاتا ہوں تو یہ اُن فلاسفر کا علم اورمیری معلومات ہیں۔ صاحب علم صرف وہی کہلاتا ہے جوتخلیق کرتا ہے کہ تخلیق خارجی دنیا کے تجربات کا ہماری داخلی دنیا کا حصہ بننے کے بعد جب جمالیاتی حسن کی آمیزش کے ساتھ دوسرے انسانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو دیکھنے والے اُسے عش عش کراٹھتے ہیں۔دنیا میں بسانے والے انسانوں کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں سب سے پہلے اہل عقید ہ آتے ہیں اِن لوگوں انداز فکر مذہبی ہوتا ہے اور اِن کی تخلیق کا دائر ۂ کار بھی مذہب کے گرد گھومتا رہتا ہے اوریہ نت نئے اخلاقی قوانین یا اخلاقی فوانین پر پابندیاں لگاتے یا اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ حمد ٗ منقبت ٗنعت ٗ اشلوک اور مذہبی گیت اِن کی تخلیق کا بڑا حصہ ہوتے ہیں۔دوسرے نمبر پر ہم اہلِ رحجان کو لا سکتے ہیں جو اپنے رججان کے مطابق سوچتے اور تخلیق کرتے ہیں اورحقیقت میں انہیں انسانوں نے اِس بلیک ان وائٹ دنیا کو کلر کیا ہے۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور اہرام مصرسے لیکر جنوبی امریکہ کے میدان اور بابل کے باغات سے لے کر تاج محل اوراُس کے بعد تخلیق ہونے والی ان گنت عمارتیں ٗمیوزک ٗ رقص ٗ شاعری ٗمجسمہ سازی ٗمصوری اور اِس کے علاوہ بھی فنون لطیفہ کی دوسری شاخیں اِن کے رجحان کا حصہ ہوتی ہیں۔ اہل رحجان اہل ِعقیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر اہل عقل آتے ہیں جہنوں نے انسانی زندگی کو نہ صرف آسان بنا دیا ہے بلکہ انسان کو بہت سے موروثی بیماریوں اور قدرتی آفت سے نجات دلوائی ہے۔ اِن کی تخلیقا ت نے غار سے نکلے ہوئے انسان کے ہزاروں خوف اور بیماریاں ختم کی ہیں۔یہ لوگ عموما اہل عقیدہ نہیں ہوتے اور صرف اُسی چیز کومانتے ہیں جو ماپی اور تولی جا سکے۔ دنیا کا ہر انسان کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن اظہارکیلئے سب کے پاس زریعے اظہار ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی بات اُس جمالیاتی حسن کے ساتھ پیش نہیں کرپاتا جس انداز سے ایک تخلیق کار پیش کرتا ہے۔ انسان نے اظہارکیلئے فنون لطیفہ کو مختلف شاخوں کو نہ صرف جنم دیا بلکہ اُس میں گراں قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔ زمین کے کسی محصوص جغرافیے میں ٗ انسانوں کے کسی محصوص گروہ نے بحیثیت انسان جو بھی کام سرانجام دیا ہے صدیوں کے ارتقاء نے اُس تواتراورتسلسل سے ہوتے کام کووہاں کا کلچر بنادیا ہے اور پھر نسل در نسل لوگ اُسے کلچر کے نہ صرف وارث بن جاتے ہیں بلکہ نگہبان اور رکھوالے بھی۔ چونکہ دنیا کے مختلف خطوں میں انسانوں کا ارتقائی سفر مختلف ہے سو اسی وجہ سے دنیا کا ایک کلچر دوسرے سے نہیں ملتا ہے اِس بے ترتیب کلچرز میں موجود ترتیب نے ہی اِس دنیا کو خوبصورت بنا رکھا ہے کیونکہ جب ہم قدرت کو غور سے دیکھتے ہیں تو یہ کائنات بظاہربے ترتیب دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی بے ترتیبی کے اندر موجود ایک ترتیب ہے جو اِسے خوبصورت بنا دیتی ہے بالکل ایک شاعر کے ایک شعر کے دومصرعوں کے درمیان موجود تلازمہ دونوں مصرعوں کو جوڑ کر دو الگ الگ باتوں میں ربط اور ترتیب پیدا کر دیتا ہے۔ احساسات اور جذبات کے اظہار کیلئے ,کوئی گاتا ہے اور کوئی ناچتا ہے, کچھ نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو کوئی کالم لکھ کر اپنی رائے دیتا ہے, کوئی رنگوں‘ پنسلوں اور برش سے پینٹنگ کرکے اپنے فن پارے تخلیق کرتا ہے,کوئی فلم یا ڈرامہ بنا کر اپنے اندر کی کہانی سناتا ہے تو کوئی آپ بیتی, جگ بیتی, سفر نامہ یا ڈرامہ لکھ کر قلمی تقاضے پورے کرتا ہے۔ دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں بیٹھے تخلیق کار اظہار کیلئے فنون لطیفہ کی کسی نہ کسی شاخ کا سہار ا لیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے قازقستان کے صحت افزاء شہر بورابائے میں ای سی جی (Eurasian Creative Guild)کے زیر اہتمام ایک آرٹ,کلچر,اور فلم فیسٹول کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز 25ستمبر اور اختتام 30ستمبرکو ہوا۔یوں تو ادبی,فلمی,اور ثقافتی میلے دنیا میں لگتے ہی رہتے ہیں لیکن ای سی جی کے پلیٹ فارم پر منعقد ہونے والا یہ ثقافتی, ادبی اور فلمی میلہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں پندرہ ممالک کے ساٹھ افراد اپنے فن پارو ں کے ساتھ جلوہ گر افروز ہوئے تھے۔جس میں آسٹریلیا, اسرائیل, برطانیہ, جرمنی, پاکستان سمیت وسطی ایشیا ء کے دیگر ممالک کے قلم کار, فنکار,شاعر اور صحافیوں نے شرکت کی۔ایک ہفتے پر محیط اس ثقافتی,ادبی اور فلمی میلے میں دھنک کے حسین رنگوں کا امتزاج تھاجس نے سارے ماحول کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ مختلف زبانوں, رنگوں, نسلوں, قومیت سی تعلق رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنے آرٹ کے ذریعے حاظرین کوورطہء حیرت میں مبتلات کردیا۔اس پروگرام کی خوبصورت انفرادیت یہ بھی تھی کہ اسے پانچ مختلف مقامات پر منعقد کیا گیا جس میں پارک ہوٹل, ریکسوس ہوٹل, ریزیڈینسیا, پیڈا گوگیکل کالج وغیرہ شامل تھے۔ پیڈا گوگیگل کالج میں فلم سکریننگ ہوئی جس کے بعد برطانیہ اور آسٹریلیا سے آئے شرکاء کو کالج کا معلوماتی دورہ بھی کروایا گیا۔ دن کو مختلف قسم کے پروگراموں کے بعد رات کو غیر رسمی محفل بھی جمائی جاتی۔ جس میں شاعر اپنا کلام سناتے, گیت و رقص کے ساتھ باہمی امور پربھی بات چیت بھی ہوتی رہی۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز Rixosجیسے فایؤ سٹار ہوٹل سے کیا گیا جہاں پینٹنگ کی نمائش کے علاوہ موسیقی کا شو بھی رکھا گیا تھا۔ پروگرام کا آغازاور انجام بخیر RIXOS پو اختتامی تقریب منعقد کرکے کیا گیا جس میں ایوارڈ شو, فیشن شو سمیت خصوصی عشائیہ بھی دیا گیا۔
اس پروگرام کے کامیاب انعقاداور بہترین منجمنٹ کا سہرا بلا شبہ ای سی جی کے ٹیم خصوصأ وائس چیئر مین مرات, محترمہ اینا لاری,محترمہ تانیہ اور نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں پر مشتمل رضاکاروں کی ٹیم کے سر ہے۔ جنہوں نے کمال مہارت, محنت ٗ لگن اورمحبت سے میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے جس سے شرکاء کو یہ احساس ہوا کہ وہ کسی پرائی جگہ پر نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہی ہیں۔ ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر آئندہ فیملی کے ساتھ آنے کی خواہش نے جنم لیا۔انسانی فطرت ہے کہ اس کے کام کی تعریف کہ جائے تو اس میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ مزید محنت کرے,اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ای سی جی کی انتظامیہ نے ایک قابل ستائش کام یہ کیا کہ اپنے نوجوان رضاکاروں کی ٹیم کو سٹیج پر بلا کربہترین پروگرام منعقد کروانے پر اُن کی خدمات کو سراہا۔ اسی طرح کمسن بچیوں نے جب فیشن شو میں حصہ لیا تو ان کے باقاعدہ انٹرویو کیے گئے۔
انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے کام اورخدمات کو سراہا جائے, تا کہ وہ پھر نئے عزم اورجذبے کے ساتھ نئی امنگ لے کر اپنے کام میں مگن ہو جائے تاکہ کام سے دام اور نام کماتا رہے۔دنیا میں کوئی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کی موت کے بعد دنیا اُسے فراموش کردے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نام مرنے کے بعدبھی زندہ رہے تو اس کے بس دو ہی طریقے ہیں کہ یا تو ہم کچھ ایسا لکھ جائیں جس پڑھنے کے قابل ہو یا پھر کوئی ایسا کام کرجائیں جو لکھنے کے قابل ہو تاکہ ہمارے مرنے کے بعد لوگ یا تو ہمیں پڑھتے رہیں یا پھر لکھتے رہیں۔ ماضی کی کتب دیکھ کر اگر آپ کے ذہن میں ولیم شیکسپیئر, جان کیٹس, رابرٹ فراسٹ وغیرہ کا نام ذہن میں آتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا لکھ دیا تھا جو آج بھی پڑھنے کے قابل ہے۔سائنس اورٹیکنالوجی کے اس دور میں نت نئی ایجادات متعارف ہورہی ہیں یقینی طور پر ان کے موجد بھی البرٹ آئن سٹائن, اساک نیوٹن, روڈولف ڈیزل, اوہم, فیراڈے وغیرہ کے نام بھی ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ اسی طرح کوئی پینٹنگ دیکھیں تو پیبلو پیکاسو کا نام فوری ذہن کی مومی تحتی پر ابھر آتا ہے۔سسپنس اور ڈرامائی فلم کا ذکر کریں تو الفریڈ ہچکاک کا نام بھی زبان پر ضرور آتا ہے کیونکہ ان لوگوں نے کچھ ایسا کیا ہے جس پر لکھا اور بولا جاتا ہے یا ایسا لکھ گئے ہیں جسے پڑھا جاتا ہے اور بعض لوگوں کا لکھا تو نصاب کا حصہ بھی ہے۔ اس لحاظ سے ای سی جی Eurasia Creative Guildکو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جس پر مختلف ممالک سے ایسے شرکاء اکٹھے ہوئے جن کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ ایسا کچھ پیش کریں جس پر لکھا یا بولا جائے یا ایسی چیز پیش کریں جسے پڑھا جائے تاکہ ان کا نام بھی اٌئندہ نسلوں میں زیادہ دیر تک ان کے مثبت کام کی وجہ سے زندہ رہ سکے۔امید ہے کہ ای سی جی اسی جوش و جذبے سے آئندہ بھی ایسے مواقع فراہم کرتی رہے گی جس سے دنیا کے مختلف ممالک سے فنکار, ادیب, دانشور اور فلم میکر ز وغیرہ اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایسی صحت مند سرگرمیوں کا ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ اس میں مختلف ممالک کے مکتبہ فکر ایک جگہ جمع ہوکر معاشرے میں بہتری اور ہم آہنگی لانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اِ س گلوبل ولیج میں بسنے والے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ قریب لا کردنیا سے جنگ ٗ نفرت ٗ بھوک ٗ افلاس اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ میری یہ خواہش ہمیشہ رہے گی کہ ایسا یادگار پروگرام کروانے والی قوم کے حقیقی کلچر میں جا کر کچھ دن عام آدمیوں کے ساتھ بھی گزار سکوں کہ جس کتاب کا ایک ورق اتنا دلچسپ تھا وہ مکمل کتا ب کیا ہی خوبصورت ہوگی۔

تحریر: سہیل احمد لون

سربٹن۔ سرے

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button