لندن(سفینہ خان)برطانیہ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 11سال سے کم عمر بچوں کو منشیات کا عادی کرکے اْنکے ساتھ بدسلوکی اور بد فعلی کے متعددد واقعات نے ہلچل مچا دی ہے، ان جرائم میں ملوث افراد کو ”گرومنگ گینگ“ کا نام دیا گیا ہے۔
ان واقعات میں 11 سال سے کم عمر کی بچیوں کو شراب اور منشیات دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اسمگل کرکے جسم فروشی پر مجبور کیا گیا ہے اور کئی مردوں نے ایک سے زیادہ مواقع پر ان کی عصمت دری کی۔
بچوں کے جنسی استحصال کی شدت نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث صرف چند ہی مجرموں پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں ہی سزا سنائی گئی۔
ایسےواقعات کے بعد برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ گرومنگ گینگز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور باقی مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے ان کو جو بھی کرنا پڑا وہ کریں گے ۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک نئی ”گرومنگ گینگز ٹاسک فورس“ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر ٹاسک فورس کا اعلان کرنے سے صرف ایک دن پہلے ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نےاپنے ایک بیان میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے جرائم کے مرتکب ”مردوں کا گروہ، تقریباً تمام کے تمام پاکستانی نژاد برطانوی“ ہیں۔
برطانوی حکومت کی جانب سے اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کی حمایت نہ کرنے کے باوجود وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اتوار کے روز گرومنگ گینگز کے بارے میں خدشات پر بات کی اور کہا کہ جرم کرنے والے مردوں کے گروہ جو تقریباً تمام برٹش پاکستانی ہیں اور ایسے ثقافتی اقدار رکھتے ہیں جو برطانوی اقتدار کے ساتھ بلکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ۔انہوں نے حکام پر ”نسل پرست“ کا لیبل لگنے کے خوف سے ”آنکھیں بند کرنے“ کا الزام بھی لگایا۔
سویلا بریورمین کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی نژاد مرد ان ثقافتی اقدار کے حامل تھے جو برطانوی اقدار کے ساتھ ”مکمل طور پر متصادم“ ہیں، اور یہ مرد خواتین کو ”فرسودہ اور بے تکلفانہ طور پر گھناؤنے“ انداز میں برتاؤ کرتے ہوئے ”تذلیل اور ناجائز انداز“ سے دیکھتے ہیں۔
ان کے اس بیان کو ویسٹ یارکشائر کی لیبر میئر ٹریسی بریبن نے ’ڈاگ وِسل‘ کا نام دیا ہے، یعنی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی پیغام دینا ۔
برطانوی وزیر سویلا بریورمین کی جانب سے مجرموں کی نسل کے تذکرے نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔
اس بیان نے مسائل کے حل کی بجائے نئی بحث اور سوسائٹی میں تقسیم کو فروغ دیا ہے ۔ ایک طبقہ دعوی کر رہا ہے کہ ان مردوں کی ثقافت جرائم کا باعث بنی دوسرے طبقے کہ مطابق اب یہ نسلی تعصب تفتیش میں رکاوٹ کا باعث بنے گی ۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے برطانوی سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اس بیان سے ایک گمراہ کن تصویر پیش کی گئی جس کا مقصد برطانوی پاکستانیوں کو ہدف بنانا اور مختلف انداز میں پیش کرنا مقصود ہے۔“
دفتر خارجہ کے مطابق برطانوی سیکرٹری داخلہ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی جانب سے برطانوی معاشرے میں بے شمار ثقافتی، معاشی اور سیاسی خدمات کو بھلا دیا اور برطانیہ میں موجود نسل پرستی کا بھی ذکر نہیں کیا۔برٹش پاکستان فاؤنڈیشن (بی پی ایف) نے وزیر اعظم رشی سنک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سویلا بریورمین کی انتہا پسندانہ بیان بازی سے خود کو دور کریں اور برطانوی پاکستانیوں سے معافی مانگیں۔
Note:Safina Khan is working with Pakitsani media houses as a freelance journalist