کابل:افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد یہودی برادری کا آخری فرد زبولون سیمینٹوف بھی جمعہ کے روز ملک چھوڑ کرچلا گیا۔افغانستان چھوڑتے وقت اسکے ہمراہ 30 افراد تھے جس میں 28 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
تفصیلات کے مطابق،زبولون سیمینٹوف کابل میں واحد عبادت خانہ میں رہائش پذیر تھا اور اس کی دیکھ بھال کرتا تھا ، یہ عبادت خانہ وہ بیرون ملک سے حاصل کردہ عطیات سے چلاتا تھا۔ افغان دارالحکومت میں آباد 60 سالہ سیمینٹوف ، جو افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات اور سیاسی اونچ نیچ کے باوجودحتی کہ طالبان کے سابقہ دورحکومت 1996 سے 2001 تک کابل میں ہی رہائش پذیررھا۔
ایک اسرائیلی امریکی تاجر موتی کاہنہ،جس نے یہودی قوم کے واحد شخص کو کابل سے فرار ہونے میں مدد کی، نے بتایا کہ سیمنٹوف اور دیگر 30 افراد نے افغانستان کے پہاڑی علاقے میں وین کے ذریعے سفر کیا اور پیر کے روز "پڑوسی ملک” میں داخل ہونے سے پہلے کئی چوکیوں پرطالبان سے سامنا ہوا۔ کاہانہ نے بتایا کہ اس نے درجنوں بچوں کو افغانستان میں چھوڑنے سے انکار کردیا تھا جس کے لیئے وہ خراج تحسین کا حقدار ہے۔۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ افغانستان میں کسی زمانے میں یہودیی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ ایک امریکی ادارے کے مطابق 19 ویں صدی کے وسط میں یہ تعداد 40،000 تک پہنچ گئی 1870 کے بعد اس تعداد میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک کی یہودی کمیونٹی کے بیشتر ارکان نے 1948 میں اسرائیل بننے اور پھر 1979 میں سوویت حملے کے بعد افغانستان چھوڑ دیا۔ افغانستان میں رہنے واحد یہودی کے طور پر سیمنٹوف حالیہ دہائیوں میں میڈیا کی جانب سے نمایاں توجہ ملی، اخباری رپورٹس کے مطابق اْسکے اہل خانہ اسرائیل میں آباد ہوچکے تھے لیکن اس نے ہمیشہ افغانستان چھوڑنے سے انکارکیا۔ 2010 میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران ، سیمینٹوف نے طالبان کے ساتھ ماضی کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طالبان نے "ہر ایک کے کاروبار میں مداخلت کی”۔ سیمینٹوف نے سی این این کو بتایا کہ انہیں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں چار مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا اور حراست کے دوران انہیںتسدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
افغانستان سے حالیہ امریکی انخلا اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعدہزاروں افغانیوں نے ملک چھوڑ دیا، جس میں غیر ملکی شہری ، امریکی اور برطانوی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانی اور طویل عرصے سےنسلی بنیاد پر ظلم وستم بننے والے ہزارہ اور مذہبی اقلیتوں کو خدشہ تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اْن پر ظلم وستم مزید بڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ مارے بھی جاسکتے ہیں۔ کاہانہ نے کہا کہ خطرے کے باوجود ، سیمنٹوف نے ابتدائی طور پر اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ تاہم ، اس کے پڑوسیوں نے اسے خبردار کیا کہ وہ محفوظ نہیں ہے ، اور اگر وہ طالبان کے ہاتھوں بچ بھی گیا تو اسلامی عسکریت پسند گروپ داعش-خراسان کے ہاتھوں مارا بھی جاسکتا ہے۔