10۔ خیالات

ن لیگ کی انتخابات میں مسلسل شکستوں کے بعد پارٹی کے اندر سے مریم نواز کی مخالفت میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق نواز شریف نے مریم نواز کو پارٹی سے مائنس کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد مریم نواز کو خاموش کروانے سے انکار کر دیا۔ اس حوالے سے سینئر صحافی رانا عظیم نے نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ آزاد کشمیر انتخابات اور سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد پارٹی رہنماوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ مریم نواز کو کچھ عرصے کیلئے خاموش کروایا جائے، جس پر قائد ن لیگ نواز شریف نے سوچنے کیلئے کچھ وقت مانگا۔
غور و فکر کے بعد اب نواز شریف نے پارٹی رہنماوں اور کارکنوں پر واضح کیا ہے کہ پارٹی صدر کو مریم کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ مریم نواز جلسے جلوس بھی کریں گی اور میرا بیانیہ بھی آگے بڑھائیں گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ آزاد کشمیر انتخابات میں پارٹی صدر کی بنائی ہوئی حکمت عملی نظر انداز کرنے پر شہباز شریف شدید ناراض ہیں، شہبازشریف نے آزاد کشمیر الیکشن میں شکست پر پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دی۔ لیکن فی الحال ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے شہبازشریف سے خاموش رہنے کی درخواست کی ہے اور سارا معاملہ پارٹی قائد نوازشریف کے سامنے اٹھانے کی یقین دہانی کرائی، جس پر شہبازشریف خاموش ہو گئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کے پاس کیا سیاسی آپشن ہیں۔ کیونکہ آب تک کی سیاست کا جائزہ لیں تو سمجھ میں یہ ہی آتا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ سمیت پارٹی کے اندر بھی بغیر کسی ٹکراو کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن پارٹی کے معاملات اور بیانیہ کی اس جنگ میں ٹکراو پہلے بھی موجود تھا اور اب یہ ٹکراو اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کو یہ کریڈیٹ دینا ہوگا کہ وہ ان تین برسوں میں بطور پارٹی متحد ہی رہی ہے او ران میں بڑی تقسیم پیدا نہیں ہو سکی۔
لیکن اگر گومگوں کی یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو پھر پارٹی کے اندر نہ صرف تقسیم یقینی ہوگی بلکہ پارٹی کمزور بھی ہوگی۔ شہباز شریف کو عام انتخابات سے قبل پارٹی کو اس بحران سے نکالنا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ وہ خود سے آگے بڑھ کر اپنی قیادت کی عملی شکل پیش کریں۔ سیاست میں جب تک قیادت دو ٹوک موقف کے ساتھ سامنے نہیں آتی اور اپنے موقف پر بڑا سٹینڈ نہیں لیتی تو وہ خود بھی سیاسی مواقع کو ضائع کر دیتی ہے۔ یہ تاثر بھی بڑھ رہا ہے کہ نواز شریف بھارت، افغان، امریکی لابی سمیت ان قوتوں کے زیادہ قریب ہیں جو پاکستان مخالف ایجنڈے پر کھڑے ہیں۔
شہباز شریف چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بند کریں، خاموشی اختیار کرلیں اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں، شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف انہیں پارٹی کا مکمل کنٹرول دیدیتے ہیں تو پھر وہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں اور اداروں کے ساتھ ڈائیلاگ کریں گے، اگر نواز شریف نہیں مانتے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کی سینئر لیڈرشپ شہباز شریف کے موقف کی حامی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کراؤڈ پلر ہیں مگر ابھی شہباز شریف کو معاملات حل کرنے دیئے جائیں مگر مریم نواز اس سے متفق نہیں ہیں۔
شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سمیت جنرل کونسل اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس طلب کرے اور موجودہ صورتحال میں پارٹی کی داخلی پالیسی اور حکمت عملی پر غور و فکر کر کے کچھ نیا تلاش کریں۔ کیونکہ اگر واقعی شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس بھی وقت بہت کم ہے۔ وہ پہلے ہی اپنا کافی وقت ضائع کرچکے ہیں اور اب کیونکہ سیاسی ماحول میں 2023 کا سیاسی ایجنڈا اور ماحول غالب ہو رہا ہے تو ایسے میں مسلم لیگ نون کو داخلی کشمکش اور تناو سے باہر نکلنا ہوگا۔ مسلم لیگ نون اس وقت جس بڑے بحران سے گزر رہی ہے اس سے یقینی طور پر مفاہمتی بیانیہ کے ساتھ شہباز شریف بچا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ان کو یقینی طور پر نواز شریف کی مکمل حمایت کی بھی ضرورت ہے اور ان کو سیاسی فیصلوں میں فری ہینڈ بھی ملنا چاہیے۔ یہاں اصل میں نواز شریف کے سیاسی تدبر کا بھی امتحان ہے کہ وہ پارٹی سے جڑے بگاڑ کو بچانا چاہتے ہیں یا مریم کے سیاسی راستے کے لیے جو نئے سیاسی سطح پر نون لیگ کے لیے امکانات موجود ہیں اسے خراب کرنا چاہتے ہیں۔
شہباز شریف اس کام میں اپنی پارٹی کے سرگردہ افراد اور ارکان قومی، صوبائی اور سینٹ میں موجود ارکان کی مدد سے نواز شریف پر دباو بڑھا سکتے ہیں کہ وہ معاملات کا کنٹرول شہباز شریف کودیں۔ اگر شہباز شریف ایسا نہیں کرتے تو وہ خود بھی سیاسی طور پر تنہا ہوں گے اور پہلے ہی ان کے پارے میں یہ تاثر مضبوط بن رہا ہے کہ وہ بڑا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ نواز شریف کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ البتہ شہباز شریف کی ایک سیاسی برتری یہ ہی ہے کہ پارٹی پر ان کا کنٹرول مریم نواز سے زیادہ ہے اور پارٹی کے لوگ جو طاقت ہیں ہیں وہ شہباز شریف کے حامی ہیں کیونکہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست ہی ان کے لیے اقتدار کی سیاست میں موجود مشکلات کو کم کر کے اقتدار کی سیاست کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
اتوار، یکم اگست، 2021
شفقنا اردو۔
ur.shafaqna.com
پچھلی پوسٹ
بھارت کی کرکٹ کو سیاست زدہ کرنے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، فواد چوہدری