– کالم و مضامین –
گھناؤنے جرائم کی نہ کوئی قومیت ہوا کرتی اور نہ کوئی تذکیر و تانیث۔ ابھی پچھلے دنوں 3 مارچ کو لندن کے ایک خاموش علاقے میں سارہ نامی ایک خاتون اپنی سہیلی سے ملنے کے بعد شام ڈھلے واپس پیدل آ رہی تھی کہ اچانک غائب ہو گئی۔ پولیس نے تفتیش شروع کرتے ہوئے کیس کی خوب تشہیر کی۔ ایک ہفتے کے بعد ایک قریبی جنگل سے خاتون کی لاش بر آمد ہو گئی۔ اس سے اگلے دن لندن پولیس کی خاتون سربراہ نے پریس کانفرنس میں ایک پولیس والے کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے سخت ندامت اور افسوس کا اظہار کیا۔
ملزم کو عدالت پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنا جرم قبول کر لیا اور اب ستمبر میں اسے سزا سنائی جائے گی۔ کہانی اس کے بعد ہماری کہانیوں سے یکسر بدل جاتی ہے۔ جب مبینہ قاتل گرفتار ہوا تو اس وقت کووڈ کی وجہ سے کسی بھی اجتماع کی سخت ممانعت تھی لیکن کچھ خواتین نے سوشل میڈیا میں ”اپنی گلیاں واپس لو“ نامی تنظیم بنا کے سارہ کی یاد میں اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ پولیس نے منتظمین کو متنبہ کیا کہ کووڈ قوانین کے تحت کوئی بھی اجتماع غیر قانونی ہو گا۔
منتظمین نے اجتماع کینسل کرنے کا اعلان کیا لیکن بات اب چل نکلی تھی اور وقت مقررہ پر ہزاروں مظاہرین جن کی بیشتر تعداد خواتین پر مشتمل تھی نے مقتولہ کی یاد میں شمعیں روشن کیں اور خواتین کے تحفظ کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس سے پیشتر امریکہ میں جب ایک سیاہ فام ملزم ڈیوڈ فلائڈ کی ہلاکت کی مذمتی تحریک برطانیہ پہنچی تو سبھی بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے کووڈ قوانین اور تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پرجوش مظاہرے کیے تھے۔ جن میں اکثریت سفید فام لوگوں کی ہوا کرتی تھی۔
اس قصے کا مقصد اس نکتے کی نشاندہی ہے کہ معاشروں کی تفریق جرائم کی بنیاد پر تو نہیں کی جا سکتی لیکن کسی جرم کے رونما ہونے کے بعد ریاستی نظام کیسے حرکت میں آتا ہے اور معاشرہ کیسے اپنے عمومی جذبات کا اظہار کرتا ہے ان سے یقیناً زندہ اور مردہ معاشروں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کی بدولت اب پاکستانی معاشرے میں بھی ہر خنجر نہ صرف دکھائی دینے لگا ہے بلکہ مجروحین اور مقتولین کی تڑپ اور معاشرے کے جگر میں مقیم زخموں کو سوشل میڈیا نمایاں کرتا رہتا ہے۔ ساحر لدھیانوی اور سعادت منٹو کی طرح احمد فراز نے بھی ہمارے خود فریبانہ دعووں کو رد کر کے زمینی حقیقت یوں رقم کی کہ ”کبھی چنی گئی دیوار میں انارکلی، کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی“ ۔ جو پہلے پوشیدہ مگر کاری زخم تھے سوشل میڈیا نے اب ان کو سرعام کر دیا ہے۔
جب معصوم زینب کی کہانی سوشل میڈیا میں آئی تو روایتی میڈیا نے بھی کہانی کو خوب مشتہر کیا۔ اور اپوزیشن نے بھی حکومت کی گوشمالی کے لئے پورا فائدہ اٹھایا۔ جو اپوزیشن کا جائز حق ہوا کرتا ہے۔ جس برق رفتاری سے مجرم کو گرفتار کر کے پھانسی دلوائی گئی اس سے ایسے لگا کہ اب عام آدمی کی آواز کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین کو یہ خوش فہمی ہو گئی کہ زینب کا کیس سر ہونے سے انھوں نے انصاف کے تمام مطلوبہ اہداف حاصل کر لیے ہیں۔
تاہم یہ خوش فہمی دور ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ تواتر کے ساتھ چھ سے دس سال کی بچیوں کی آبرو ریزی اور سنگدلانہ قتل کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ سعادت حسن منٹو کا کہنا تھا کہ معاشرہ برہنہ ہو تو افسانہ نگار کا کام درزی کی طرح کپڑے پہنانا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا بھی ایک آئینے کی مانند معاشرتی برہنگی دکھا کے ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں۔
حال ہی میں نور مقدم کے گھناؤنے قتل کی واردات سامنے آئی تو جیسے معاشرے کے مین ہول کا ڈھکن اٹھ جانے پر بدبو کے بھبوکے ہر طرف پھیلنے لگے ہوں۔ خاتون کو گھر میں قید کر کے اذیت پہنچانے اور قتل کرنے کی وارداتیں کوئی انوکھی نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور ان پر فلمیں اور ڈرامہ سیریز بنتی رہی ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مقتول یا اس سے وابستہ افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہو۔ یہ انوکھی ریت ہمارے ہاں قائم ہے کہ قتل کی سفاکی تو اپنی جگہ، اس طرح کے واقعے کے بعد جو معاشرتی گفتگو جنم لیتی ہے وہ معاشرتی ذہن کی اپنی سفاکی کو بھی خوب عیاں کرتی ہے۔
نور اس لیے قتل نہیں ہوئی کہ اس کا قاتل سے میل جول تھا یا وہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف متحرک تھی ورنہ ہر دوسرے روز دیہات اور غربا کی بستیوں سے چار سالہ بچیوں سے لے کر ادھیڑ عمر خواتین سے زیادتی اور قتل کی وارداتوں کی خبریں نہ اٹھا کرتیں معصوم زینب نے کون سی تحریک میں حصہ لیا تھا کہ ایک نعت خواں کے ہاتھوں اس وقت درندگی کا شکار ہوئی جب والدین عمرہ میں مصروف تھے۔
یہ مسئلہ نہ کلاس کا ہے نہ انداز فکر کا۔ اصل مسئلہ ملکیت والی سوچ کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہر طاقتور خود کو کمزور کا مالک سمجھتا ہے۔ اسے یہ گمان ہے کہ وہ کمزور کے ساتھ کھلونے کی مانند کھیل سکتا ہے اور طیش میں اسے زمین پر پٹخ کر توڑ بھی سکتا ہے۔ مولوی اور اس طبع کے لوگ خدا اور اس سے وابستہ تعلیمات کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ذرا سی بات پر توہین کے الزامات داغتے ہوئے انسانوں کے قتل سے تسکین پاتے ہیں۔ وڈیرے اپنے مزارعوں کے ساتھ اور عسکری افسران بالا سولین حضرات کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں اور ناراضی کی صورت میں زندگیوں کے چراغ گل کرنے میں تامل نہیں کرتے۔
طاقت کا ایک ایسا رشتہ صنفی تقسیم پر بھی استوار ہے۔ معاشرے کے نچلے طبقات میں تو بچیاں تعلیم سے محروم رہ کر صرف بچے جننے والی مشینیں بن کر رہ جاتی ہیں۔ مارپیٹ اور گالم گلوچ ان کی بے مایہ زندگی کے لازمی اجزا بن جاتے ہیں اور قتل ہوجانا بھی کوئی بڑا سانحہ نہیں گردانا جاتا۔ متمول طبقات میں طاقت کا یہ توازن کچھ قدرے بہتر ہو جاتا ہے کیونکہ تعلیم انسان میں عزت نفس کا مادہ پیدا کرتی ہے اور سوال کرنے کی جرات بھی۔
انتہائی متمول اور ناز بردار طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان لیکن کچھ اور مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ خود کو مغل شہزادے گردانتے ہوئے ہر چیز پر قادر مطلق ہونے کا خوش کن احساس پال لیتے ہیں۔ یہ یہی احساس تھا جس کے تحت شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب خان کا پیچھا کر کے اسے گولیاں مار ڈالیں۔ اور جب سندھ ہائی کورٹ نے دیت قانون کے تحت رہائی کا حکم سنایا تو اسی احساس کے تحت اس نے وکٹری کا نشان بنایا تھا۔ نور کی دفعہ بھی یہی ہوا۔
ظاہر جعفر کو وہی پاگل پن لاحق ہے جو تمام طاقتور طبقات کو اپنے سے کمزور کی بابت ہوا کرتا ہے۔ چاہے ساہیوال پر بچیوں کے سامنے خاندان کے بڑوں کا گولیوں سے بھونا جانا ہویا راؤ انوار کے آگے ایک خوش شکل نوجوان کی بے بسی ہو یا بھائی کے ہاتھوں قندیل کا گلا گھونٹا جانا ہو یا جذبۂ ایمانی سے سرشار گروہوں کا عیسائی جوڑے کو آگ کی بھٹی میں بھسم کرنا ہو یا اعلی تعلیم کی درسگاہ میں ایک ذہین و فتین طالبعلم مشعال خان کو شرپسندی کا نشانہ بنانا ہو۔
بنیادی طور پر یہ ایک ہی پاگل پن کی مختلف قسمیں ہیں۔ بدقسمت نور کا پالا بھی ایک ایسے ہی پاگل سے پڑ گیا تھا جس نے انتقام کی آگ میں اس سفاکی کا مظاہرہ کیا جس کی کوئی توجیح نہیں پیش کی جا سکتی یا اگر مگر سے کام لے کر جرم کی سنگینی کم کی جا سکتی ہے۔ صنفی امتیاز کے عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کے 156 ممالک میں سے 153 ویں پوزیشن پر ہے۔ صرف عراق، یمن اور افغانستان ہم سے زیادہ نیچے ہیں۔ اگر سنگین جرائم ہونے پر ہم وجوہات قاتل کی وحشت کی بجائے مقتول میں ڈھونڈیں گے تو عالمی سطح پر ہماری رسوائی کا ساماں ہوتا رہے گا۔ لیکن اصل سوال عزت یا بے توقیری کا نہیں بلکہ انسانی زندگی کے مقدس حق کاہے جس کی پامالی کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر ہو، یا ہمارا آئین یا ہمارا مذہب۔ یہ زمین پر خدا بن کر انسانی زندگی سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار کسی بھی طاقتور کے پاس نہیں۔

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں .
آواز جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں.