42۔ خیالات

عرب بہار نے ہر کسی کو جہاں حیران کیا ہے وہیں پر تیونس کے بحران نے اس کی کمزور جمہوری تجربے کو خطرے کا شکار کر دیا ہے۔ عرب بہار جس نے چار دہائیوں سے قابض ڈکٹیٹر شپ کو جڑسے اکھاڑ پھینکا وہ بالاخر مغرب کی پشت پناہی سے عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر بادشاہتوں کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنی موت آپ مر گئی۔ عرب بہار کی سوتے درحقیقت تیونس سے ہی پھوٹے تھے جس میں عوام نے مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا کیونکہ وہ معاشی اور سیاسی مواقعوں سے مکمل طور پر محروم کر دیے گئے تھے۔ تیونس نے نے عرب درحقیقت عرب بہار کو جنم دیا تھا اور اب اگر صدر قیس سعید جمہوریت کی بساط الٹ دیتے ہیں تو یہ تیونس کے لیے انتہائی مایوس کن ہوگا۔
14 جنوری 2011 میں تیونس 24 سالہ آمر زین العابدین بن علی سعودی عرب فرار ہوگئے ۔ زین العابدین جو کہ عربوں کی جانب سے اپنے بدعنوان اور ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف غم و غصے کا اولین شکار بنے۔ اس کے فورا بعد ہی مصر کے حسنی مبارک، لبیا کے معمر قذافی اور یمن کے علی عبداللہ صالح کا بھی یہی انجام ہوا۔ جب کہ شام کے صدر بشار الاسد پہلے ہی آنے والے طوفان کو بھانپ چکے تھے اس لیے انہوں نے ایران اور روس کی مدد سے اس لہر کا رستہ روک لیا۔ تاہم عربوں میں جو کچھ ہوا یہ غیر روایتی تھا۔ کیونکہ اس سے قبل انقلاب کی تمام تر کوششیں دبا دی گئی تھیں اس لیے عرب بہار عربوں کے لیے ایک غیر روایتی عمل تھا جس نے نہ صرف عربوں بلکہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ہر کوئی پر امید تھا۔ تاہم مسائل بہت سارے تھے جن میں مظاہرے اور رد مظاہرے، جبر پر مبنی آئین کی از سر نو ڈرافٹنگ اور معاشی و سیاسی عدم استحکام ، سیکورٹی کی صورتحال اور خطے میں مسلح گروہوں کے اٹھنے جیسے مسائل شامل تھے۔ تاہم اس بحران کے باوجود خطے کے ایک وسیع حصے میں انتخابات ہوئے اور بہت سارے اس بات پر یقین کرنے لگے کہ اب آمروں کا دور حکومت ختم ہوگیا ہے اور جمہوری جڑیں اس ملک میں جڑ پکڑ لیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔
مصر سب سے پہلے ایک آمر جنرل فتح السسی کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ السسی جو کہ فوج کے کمانڈر ان چیف تھے نے نہ صرف جمہوری منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا بلکہ ایک منتخب صدر محمد مرسی کو جیل کی سلاخوں میں پھینکوا دیا جبکہ ہزاروں افراد کا قتل عام کروایا ۔ اس کے بعد یمن میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسیز نے ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا۔ ان سب میں لیبیا کسی حد تک بہتر رہا اور دو پارلیمنٹس میں تقسیم ہوگیا تاہم اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انتظامیہ ناکام ہوچکی تھی اگر ترکی برقت مداخلت کر کے وار لارڈ خلیفہ ہفتار کو مشرقی حصے میں بھاگنے پر مجبور نہ کر دیتا تو۔ عرب بہار کی صرف ایک ہی کامیاب کہانی تھی اور وہ تیونس تھا تاہم اس وقت پھر تیونس بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوگیا ہے۔
اس وقت صدر سعید کے اقدامات نے تیونس میں جمہوریت کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں کیونکہ وہ بیلٹ باکس کو طاقت کی متنقلی کا درست ذریعہ نہیں مانتے اور انہوں نے پارلیمنٹ کو معطل کر کے خود کو ایمرجنسی طاقت قرار دے دیا ہے ۔ اور عرب دنیا یہ طریقہ کار کئی مرتبہ دیکھ چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی ایمرجنسی کا مطلب کیا ہوتا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
تیونس میں ہوا کیا ہے؟
تیونس کے صدر قیس سعید نے حکومت تحلیل، پارلیمان کو 30 دن کے لیے معطل اور وزیر اعظم کو معزول کر دیا ہے۔ انہوں نے اتوار کی شام فوجی اور سکیورٹی رہنماؤں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کے اراکین کے استثنیٰ کو بھی منسوخ کر دیا۔قیس سعید نے اعلان کیا کہ ملکی آئین کے آرٹیکل 80 کو استعمال کرتے ہوئے وہ نئے وزیر اعظم کی مدد سے ملک کے انتظامی اختیارات سنبھال لیں گے۔ملک کے آئین کے مطابق اقتدار صدر، وزیر اعظم اور پارلیمان کے مابین تقسیم ہے۔برسوں کے سیاسی بحران، بدعنوانی، حکومتی ناکامیوں اور بڑھتی بے روزگاری نے بہت سارے لوگوں کو عدم اطمینان کا شکار کر دیا ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد معاشی دباؤ نے ان لوگوں کے لیے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ ان لوگوں کی سیاحت کی صنعت معاش کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ کرونا وائرس اور اموات کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ویکسینیشن میں بے ضابطگیوں نے لوگوں کو مشتعل کیا ہے۔
اس سے قبل اتوار کے روز ہی ہزاروں مظاہرین کووڈ 19 کی وجہ سے عائد بندشوں کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکلے اور حکمراں جماعت اور وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ باہر نکلو اور پارلیمان کو تحلیل کر دو۔ مظاہرین میں سے بہت سے پتھر بازی کر رہے تھے جس کی وجہ سے پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔ بہت سے مظاہرین النہضہ پارٹی کے دفتر میں بھی گھس گئے جو وزیر اعظم مشیشی کی ایک اتحادی جماعت ہے۔ ان مظاہروں کے پس منظر میں صدر قیس نے کہا، ”منافقت، غداری اور عوام کے حقوق سلب کر کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ہے۔”
تیونس میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان جمہوریت کو پہنچ سکتا ہے اور کہا جاسکت ہے کہ عرب ممالک نے ایک مرتبہ ایک اور بہار کا رستہ بند کرنے کا ذریعہ تلاش کر لیا ہے۔ تاہم بحیثیت نظریہ جمہوریت ممکنہ طور پر عرب دنیا میں زندہ رہے اور اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ عربوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد ترک کر دی ہے ۔ عرب رہنماؤن کا احتجاجوں کی اگلی لہر کا خوف کھا رہا ہے کیونکہ اب ان کی رعایا اس کے کھلیوں کو سمجھنے لگ گئی ہے اور وہ اب دوبارہ کسی عرب بہار کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔
جمعتہ المبارک، 30 جولائی 2021
شفقنا اردو۔
ur.shafaqna.com
پچھلی پوسٹ
کشمیر انتخابات پر بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات بے بنیاد ہیں، دفتر خارجہ