انسانی حقوقتعلیمحقوقکالم و مضامینکشمیر

راہِ ابلاغ – ہم سب

– کالم و مضامین –

ہزاروں سال کے ارتقاء کے دوران انسانی ذہن نے کام کرنے، تجزیہ کرنے اور نتیجہ نکالنے کے لیے ایک راستہ تعمیر کیا ہے، کچھ معاملات تو واضح تھے جن کو مشاہدے اور تجربے سے بآسانی سمجھ لیا گیا یہیں سے مروجہ علم اور پھر تحصیل علم کی بنیاد پژی، وہیں ناقابل تجربہ، یا ناقابل فہم معاملات کے سمجھنے کے لیے ایک اعتقاد و ایمان کا راستہ یا طریقہ تشکیل دیا گیا، تاکہ سوالات کے جو جواب آسانی سے حاصل یا ان کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، ان سوالات کے خلاء کو اس اعتقادی اور ایمانی طریقہ سے پر کر کے آگے کا سفر جاری رکھا جا سکے، جیسے کسی پل کے درمیان خلاء یا خالی جگہ کو وہاں کچھ نہ کچھ رکھ کر ہی عبور کیا جا سکتا ہے اسی طرح ان خالی مقامات کو جن کے بارے میں تجربہ و علم و شعور کی مدد سے باآسانی پر اور عبور نہیں کیا جا سکتا ہے ان مقامات پر اعتقاد اور ایمان کے حصے ان خالی مقامات پر لگا کر وہاں سے گزر کر اپنا سفر جاری رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔

لہذا اب جہاں تک تو علم و سائنس کی پہنچ بنتی اور بڑھتی جا رہی ہے وہاں تک کے سوالات کے واضح جواب بھی دستیاب ہوتے جا رہے ہیں، اسی وجہ سے مذہب اب کئی شعبہ جات میں پسپائی اختیار کر کے پیچھے ہٹ چکا ہے، مثال کے طور پر کلیسا کا بیسویں صدی میں آ کر کوپر نیکس اور گلیلیو کے نظریات کو درست تسلیم کر لینا، کیونکہ مذہب کا کام یہ نہیں کہ کہیں دو مقامات کے درمیان فاصلے کا تعین کرے، یا، کہیں کا درجہ حرارت بتائے، تعمیر اور علاج کا کوئی جدید طریقہ تعلیم دے، کیونکہ اس کے قدیم اعتقادی اور ایمانی طریقہ یا میتھڈ کے پاس ان موضوعات کے ضمن میں پیدا ہوئے نئے سوالوں کے باثبوت اور منطقی جواب موجود نہیں، بلکہ مذہب ایک بڑے اور وسیع پیمانے پر ایک پروٹوکول فراہم کرتا ہے، جس کے طریقے اور سپرٹ پر عمل کر کے تحقیق، اور تحصیل علم کے لیے بہتر اہداف طے کئیے جا سکتے ہیں، اور انسانی مساوات کا زریں سبق حاصل کیا جا سکتا ہے، جہاں کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو سوائے تقویٰ کے، اور یہ تقویٰ کی فوقیت بھی کسے حاصل ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لہذا ہم یہ کریڈٹ کسی کو دیے بغیر کہ وہ بڑا متقی ہے، سب انسانوں، اور ان کے انسانی حقوق کے احترام کے پابند ٹھہرائے گئے ہیں، اب اس منطقے میں بھی انسانی فلاح اور بہبود کے اقدامات کرنے کی بے انتہا گنجائش موجود ہے، اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ یہاں اس شعبہ میں ہمیں حسب ضرورت مروجہ دنیاوی علوم و فنون اور سائنس کی غیر مشروط مدد اور تعاون بھی حاصل ہے۔

یوں بنی نوع انسان کے لیے بہتر آسان اور محفوظ زندگی اور ماحول کی تعمیر کے کام کی رفتار میں اضافہ کرنا اور نفرت اور تعصب پر مبنی انسانوں کو تقسیم کرنے، مغلوب و مجبور کر دینے والے آلام و فرسودہ نظریات و ماحول سے چھٹکارا پانا ممکن ہو چکا ہے۔ اس کے لئے ہمیں دنیا کے ہر انسان کو بلا تخصیص رنگ و نسل، مذہب و ملت عادلانہ مساوات کی بنیاد پر ایک جیسی حیثیت، حقوق اور ماحول و سہولیات دینی پڑیں گی، اس کے کوئی بھی نظریہ یا مذہب پر ایمان رکھنے کا حق تسلیم بلکہ اس کا احترام کرنا پڑے گا، تب ہی یہ بنی نوع انسان کے لیے اس کرہ ارض پر یہ اعلیٰ مقاصد حاصل کرنا ممکن ہو سکیں گا۔

لیکن کیونکہ ابھی دریافت کا ایک لامتناہی سفر باقی ہے، جس کے بارے میں کسی حتمی جواب یا نتیجہ تک پہنچنا اور اس کو عملی طور پر ثابت کرنا باقی ہے، تو اس طرح ابھی بھی مذہب کے اور انسان کے اعتقادی اور ایمانی میتھڈ کے لیے بہت سی جگہ اور بہت سا کام باقی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسانوں کی ان ذہنی سوچ کے طریقے کی لائنوں اور راستوں کا احترام کرتے ہوئے، اور ان کے قریب تر رہتے ہوئے ہی عوام کے ساتھ ابلاغ کی کوشش کی جائے، انھیں چونکایا یا مخالف نہ بنایا جائے، بلکہ ایسا مدلل طریقہ باہمی ابلاغ کے لیے استعمال کیا جائے جو انھیں بھی اور ہمیں بھی دیواروں سے ذرا باہر جھانکنے پر قائل کر سکے۔

ظفر محمود وانی کی تازہ ترین پوسٹس۔ (تمام دیکھیں)

ظفر محمود وانی کی دیگر تحریریں

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں .
آواز جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں.

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button