افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر حمد اللہ محب سمیت دیگر افغان رہنماؤں کی پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں جس پر حکمران جماعت کے اراکین بھی تنقید کر رہے ہیں، تاہم خارجہ امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے جمہوری نظام میں ایسی ملاقاتیں اہم ہیں۔
افغان سلامتی کونسل کی جانب سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کونسل کے سربراہ حمد اللہ محب اور افغانستان کے وزیر مملکت برائے امن سید سعادت نادری سمیت ایک وفد نے گذشتہ روز لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی جس میں میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں دونوں جانب سے اس بات پر باہمی رضامندی کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا دونوں ریاستوں کے فائدے میں ہے۔ اعلامیے کے مطابق: ’ملاقات میں دونوں ممالک میں جمہوری نظام کے تسلسل پر زور دیا گیا کیونکہ جمہوری نظام استحکام اور خوشحالی کی جانب ایک راستہ ہے جس سے تجارت کو بھی فروغ ملتا ہے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ حمد اللہ محب نے پاکستان میں جمہوری نظام کے لیے کوششوں کی مکمل حمایت کی جبکہ نواز شریف نے کہا کہ مضبوط اور پر امن افغانستان پاکستان اور اس خطے کے مفاد میں ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ملاقات کی تصویریں سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے جس میں بعض لوگ نواز شریف کی محب سے ملاقات پر تنقید کر رہے کیونکہ حمد اللہ محب کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان اور پنجابیوں کے خلاف ’نازیبا الفاظ‘ استعمال کر چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
صحافی گل بخاری نے لکھا کہ ’ہمارے مشرق اور مغرب میں موجود پڑوسی ممالک نے ہمیشہ ملک کے اصل رہنماوں نے ان لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں جو حقیقی معنوں میں امن میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کو اپنا دوست بنایا ہے۔‘
ہمارے پڑوسی ، خواہ وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں ، ہمیشہ ہی حقیقی سیاسی نمائندوں اور پاکستان کے رہنماؤں تک پہنچ چکے ہیں ، اور ایک ایسا دوست پایا جو حقیقی امن میں دلچسپی رکھتا ہو۔ شاباش ، افغانستان! https://t.co/6mtMSLy9sO
– گل بخاری (@ گل بخاری) 24 جولائی ، 2021
ڈاکٹر ثنا نامی صارف نے نواز شریف کو ’غدار ‘ قرار دے دیا۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محیب نے لندن میں غدار نواز شریف سے ملاقات کی جس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ پاکستان کی حکومت کو مسلح افواج سمیت بدنام کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے طریقوں کو کیسے انجام دیا جائے! pic.twitter.com/Bhyo9OffnB
– (skusa_dr) 24 جولائی ، 2021
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی اس ملاقات پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر شہباز گل نے نواز شریف کے ایجنڈے پر سوال اٹھایا۔
مودی، جندال سے قربت، مودی اور اسرائیل سے ملکر عمران خان کے فون ہیک کرنے کی کوشش، انڈیا میں بیٹھ کر پاکستانی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی، ڈان لیکس اور یہ تازہ ڈویلپمنٹ ریاست پاکستان کو گندی گالی دینے والے شخص سے ملاقات
کیا ان سب سے واضح نہیں ہو جاتا کہ نواز شریف کا ایجنڈا کیا ہے؟ pic.twitter.com/ZevSK5LNqi– ڈاکٹر شہباز جی آئی ایل (@ شہباز گل) 23 جولائی ، 2021
وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی تنقید کی۔
"باہمی دلچسپی کے معاملات”؟ سنجیدگی سے؟ محب کو پاک – پی ٹی آئی کی حکومت نہیں بلکہ ملک "بطور” کوٹھے دار "کے حوالے کرنے کے بعد ، را کی مشترکہ دلچسپی صرف پاک پر حملہ کرنا ہوسکتی ہے۔ لوٹی ہوئی دولت اور ملک کو بچانے کے لئے شریفوں کی اس بے شرم مفاد پرستی کو نقصان پہنچا۔ اور مریم کی ریٹویٹ سپورٹ pic.twitter.com/JR8fcRy0Lu
– شیریں مزاری (@ شیریں مزاری 1) 24 جولائی ، 2021
صحافی حسن خان نے بھی اس ملاقات پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک جانب افغانستان کی حکومت پنجابیوں کے خلاف باتیں کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب کے حکومتی عہدیداران پنجابی رہنماوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ہلکی ہے !!!!!! لیکن وہ پنجابیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں ؟؟؟؟
د ھیرہ منڈے خلاف د جھاد علان خو نہ کوی… hhhhhhhhhhhhh pic.twitter.com/Tt7GZQSw9D– حسن خان (حسانخبر) 24 جولائی ، 2021
تاہم جیونیوز سے وابستہ صحافی اعزاز سید نے اس ملاقات کو ایک اچھا قدم قرار دیا۔
انہوں نے لکھا: ’ملاقاتوں سے مسائل کا حل نکلتا ہے اور یہ ملاقات دونوں ممالک کے عوام کے لیے ایک اچھا قدم ہے۔‘
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کے واقع کے بعد افغانستان اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات خراب ہیں اور افغانستان اپنے سفارت کاروں کو واپس کابل بلایا ہے۔
اس ملاقات کو بعض تجزیہ کار بہت اہم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی ملاقاتیں جمہوری نظام میں ہوتی رہی ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب سفارتی حالات خراب ہیں تب تو ایسی ملاقاتیں اور بھی ہونی چاہیں کیونکہ جمہوری عمل میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے اور پاکستان کی بڑے سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں تو اسی وجہ سے یہ ملاقات بہت اہم ہے۔
طاہر خان نے بتایا:’ملاقات کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے وہ بہت مثبت ہے جس میں جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھنے، افغانستان میں جمہوری عمل کو مضبوط کرنے اور امن کی بات کی گئی ہے۔‘
اس کے علاہ طاہر خان نے بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات خراب ہوں تو ایسی ملاقاتوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے لیکن ’یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی حکومت اور حکومت میں موجود ایک غیر سنجیدہ وزرا کا گروپ اس ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔‘
طاہر خان نے بتایا: ’ایسی مزید ملاقاتیں ہونی چاہییں جن میں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ گلے شکوے شئیر کرتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے سفیر نے حالیہ دنوں میں افغانستان کی حکومت مخالف سمیت درجنوں سیاسی جماعتوں ارو دیگر رہنماوں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔‘
افغان امور کے تجزیہ کار اور گذشتہ دو دہائیوں سے خیبر پختونخوا اور افغانستان کے معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ یہ عام سی ملاقات ہے اور اس سے کسی قسم کی افغان پالیسی میں تبدیلی نہیں آ سکتی کیونکہ نواز شریف کی جماعت اپوزیشن میں ہے۔
رفعت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے بذات خود یہ ملاقات عجیب لگی ہے۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی افغان طالبان کے حوالے سے نرم رویہ رکھتی ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا تو افغان طالبان کو پاکستان مسلم لیگ نے سپورٹ کیا تھا۔ لیکن آج افغان حکومت جو طالبان کے خلاف لڑ رہی ہے، اس کے عہدیدار نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس ملاقات کا مطلب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ نواز شریف اس ملاقات سے کچھ اداروں یا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک پیغام دینا چاہتے ہے (کہ وہ سیاست میں موجود ہیں)۔‘
رفعت نے بتایا کہ نواز شریف اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں تو ان کی کسی پڑوسی ملک کے عہدیدار سے ملاقات کوئی مسئلہ نہیں بننی چاہیے۔