ہاں
62 آراء

لڑائی افسردگی اور خدا کی تلاش
“تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا ، اور نہ وہ ناراض ہوا (القرآن 93:3)
میں تھک گیا تھا۔ میں لوگوں کو یہ بات سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا کہ ذہنی دباؤ ایک نفسیاتی طبی بیماری ہے نہ یہ ایمان کی کمی ہے۔ میں لوگوں کو یہ سمجھا سمجھا کہ تھک گیا کہ حد سے زیادہ سوچنا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ میں لوگوںکو اس بات کی وضاحت کر کر کے تھک گیا تھا کہ محض ” اٹس اوکے ” یا ” ڈونٹ وری” یا ” سب اچھا ہوگا” کہہ دینے سے دماغ سوچنا بند نہیں کر سکتا۔ اگر آپ کسی قسم کے ذینی اضطراب کا شکار ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کا تعلق کمزور پڑ گیا ہے یا آپ ایک اچھے مسلمان نہیں ہیں۔یہ افسوس ناک بات ہے کہ بعض لوگ اس طرح سے سوچتے ہیں۔
حتی کہ ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی بعض اوقات ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے اور جب ایک مخصوص عرصے تک ان پر وحی نہیں آتی تو وہ پریشان ہو جاتے۔ وہ اس لیے پریشان اور غمزدہ ہو جاتے کہ شاید اللہ کی طرف سے پیغام نہ ملنے کا مطلب ہے کہ اللہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس صورتحال میں اللہ پاک نے سورہ ضحٰی کی ایک خوبصورت آیت نازل کی تاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوتسلی ہو جائے۔ یہ ہے وہ کہانی جس کے ذریعے میں نے اپنے ذہنی دباؤ سے نجات پانے میں کامیاب ہوسکا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب میں رو رو اپنے تکیہ بھگو لیتا تھا اور ڈر کے مارے بستر پر سونے کے لیے نہیں جاتا تھا اس خوف سے کہ ایک اور خوفناک رات میرے انتظار میں ہے۔ میں سونے کی کوشش کرتا تھا مگر میرا ذہن میرے سوچوں کی یلغار میں گھرا رہتا تھا۔ میں جتنا اس کو روکنے کی کوشش کرتا یہ اتنا زیادہ سوچنے پر مائل ہوتا۔ یہ بہت زیادہ تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
بدقسمتی سے میں لوگوں کو اپنے احساسات سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ تھا تاہم یہ ایسا لگتا تھا کہ یہ تکلیف میرے جسم کو آہستہ آہستہ چاٹ جائے گی۔ میں نے لوگوں سے جڑنے کی کوشش کی تاکہ مجھے اپنے اندر انسان ہونے کا احساس ہو اور مجھے ہرگز امید نہیں تھی کہ لوگ شاید میرے محسوسات اور تکلیف کو سمجھ سکیں گے کہ میں کس مشکل سے گزر رہا ہوں تاہم مجھے اس کا فائدہ نہیں ہوا۔ درحقیقت میں نے جتنا انسانی تعلق جوڑنے کی کوشش کی میں خود کو اتنا ہی ان سے دور محسوس کرنے لگا۔ یہ خود کش سوچیں مجھے پاگل کر رہی تھیں۔ میں نے اللہ پاک سے گفتگو کی کوشش کی کہ اور سے مددمانگی کہ وہ مجھے اس تکلیف سے نجات دلا دے ۔ یہ مایوس کن دن اور مہینے اسی تکلیف میں آہستہ آہستہ گزرتے گئے۔
میں یہ سوچ کر ہتھیار ڈالنے کے قریب تھا کہ یہ شاید ہی کبھی تبدیل ہوگا۔ مجھے وہ وقت یاد آگیا جب میں اس قدر مضبوط تھا کہ کہ میں زندگی کے تمام تر چیلنجز کا مضبوطی سے سامنا کیا کرتا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میں غلط تھا۔ یہ طاقت میرے اندر نہیں تھی بلکہ اللہ کا مجھ پر کرم تھا ۔ اس نے مجھے یہ ہمت دی تھی کہ میں ہر مشکل سے باآسانی گز ر جاؤں۔ اور اللہ نے مجھ سے یہ ہمت کبھی بھی نہیں چھینی کیونکہ اس وقت بھی میں اپنی تکالیف کا مقابلہ آنسوؤں سے کر رہا ہوں ۔ میں اب بھی جنگ لڑ رہا ہوں۔ یہ ایک مختلف طرز کی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو دلاسا دینا ہے۔
تاہم میں یہ نہیں چاہتا تھا ۔ مجھے اس بات کا واضح طور پر علم تھا ۔ اس لیے میں نے اس سے اور زیادہ مانگا اور اس سے اور زیادہ باتیں کیں ۔ انتہائی خلوص نیت اور دکھ کے ساتھ میں نے خود کو اس دھارے میں بہنے دیا کیونکہ مجھے یہ سمجھ آگئی تھی کہ زخم کو درست کرنے کے لیے اس کو سامنے لانا ضروری ہے ۔ زخم کو چھپا کر رکھنے کا مطلب اس میں موجود انفیکشن میں اضافہ کرنا اور اس کی صحتیابی کے عمل میں تاخیر کرنا ہے۔ میں نے صحتیابی کے عمل کو کافی وقت دیا۔ میں نے خود کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اس تکلیف کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔ آہستہ آہستہ میں نے تبدیلی دیکھی۔ ننید میں کمی کا عمل کم ہوگیا اور میرے دل کو ایک مرتبہ پھر روشنی نظر آنے لگ گئی ۔ اگرچہ ذہنی دباؤ کے جھٹکے وقفے وقفے سے حملہ آور ہوتےتاہم ان کی پرواہ کیے بغیر میں نے اپنی زندگی کے افعال جاری رکھے تاہم میں نے ایک کام نہیں چھوڑا۔ میں نے اللہ سے گڑگڑا کا اپنے زخم کی صحتیابی کی دعا کا عمل ترک نہیں کیا ۔ میری راتیں طویل سجدوں اور اللہ سے گہری گفتگو سے مزین ہوتی تھیں۔
میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں اپنے جائے نماز پر بیٹھا ہوتا تھا اور خاموش آنسوؤں کی لڑیاں میری آنکھوں سےبہہ رہی ہوتی تھیں۔ مجھے یقین تھا اللہ میری تکلیف کو جانتا ہے چاہے میرے پاس اس تکلیف کو بیان کرنے کے الفاظ نہ ہوں۔ اگرچہ اس تکلیف سے نجات کے معجزے کو کچھ وقت لگا تاہم بالاخر یہ ہوگیا۔ میں نے بالاخر اپنی گمشدہ امید، طاقت، ہمت اور اللہ سے اپنے تعلق کو دوبارہ پا لیا۔ آخر میں میں نے یہ بات جانی کہ میرے اللہ نے مجھے نہ تو کبھی تنہا چھوڑا تھا اور نہ ہی وہ کبھی مجھ سے ناراض ہوا تھا۔
جمعتہ المبارک، 23 جولائی 2021
شفقنا اردو
پچھلی پوسٹ
آزاد کشمیر میں ہم دھاندلی کیسے کر سکتے ہیں؟