حقوقخواتینشامکالم و مضامینکراچیکوئٹہ

عید قرباں – ہم سب

– کالم و مضامین –

عید الاضحی میں چند ہی دن رہ گئے تھے قربانی کے لئے میرا سفید بکرا آ گیا تھا جس کے پیروں پر جرابوں کی طرح کتھئی رنگ تھا۔ دم کی پھننگ اور گردن پر بھی کتھئی رنگ کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔ میاں جی بکرے کی آرائشی اشیاء ساتھ لائے تھے۔ صاحبزادے نے سرخ اور سبز دھاگے اور سیاہ موتیوں والا کنٹھا گلے میں ڈالا اور چاروں پیروں میں انہی دھاگوں میں گتھے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھنگرو باندھ دیے۔ جب وہ چلتا تو دور سے چھن چھنا چھن سنائی دیتی۔

صاحب زادے کو اب نہ کھانے پینے کی پروا تھی نہ نیند سے کوئی دلچسپی، بس ہر وقت بکرے کے ساتھ لگے رہتے۔ سارا دن ہری گھاس کی پوچی پکڑے بکرے کے منہ میں ٹھنسانے کی کوشش کرتے رہتے۔ وہ پانی کے برتن کو لات مار کر گرا دیتا تو فرج سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر ری فل کر دیتے۔ شام کو اس کی رسی تھام کر گھمانے لے جانا تو ان کی سب سے بڑی تفریح تھی۔ کراچی میں بقر عید مذہبی تہوار سے زیادہ ثقافتی میلے کی طرح منائی جاتی ہے۔

صحن والے گھروں میں تو جانور کئی دن پہلے سے آ جاتا ہے۔ شہری خواتین پر عارضی طور پر ہی سہی، دیہات کی عورت کی ذمہ داریاں منڈھ دی جاتی ہیں۔ دیہاتی عورت پر گزرنے والی بپتا کا ذاتی تجربہ انہیں اپنی ہم نفسوں کا درد محسوس کرنے اور شکر ادا کرنے موقع فراہم کرتا ہے کہ یہ کم بختی صرف دس بارہ روز کے لئے ہی آتی ہے۔ فلیٹوں میں رہنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے کمپاونڈ یا سڑک پر تمبو تان کر اجتماعی طویلہ بنا لیا جاتا ہے جہاں چھوٹے بڑے جانور ایک ہی تھان پر باندھ دیے جاتے ہیں۔

تمبو کے بانسوں پر ہائی واٹ کے کئی بلب لگے ہوتے ہیں جن کا کنکشن کنڈے کے ذریعے گلی سے گزرنے والے سرکاری تاروں سے ہوتا ہے۔ اصول تو یہ ہے تھوڑا سا حرام سارے حلال کو نیست و نابود کر دیتا ہے مگر عوام الناس کے نزدیک قربانی کے ثواب میں یہ تھوڑا سا حرام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ارباب اختیار بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور یہی انداز فکر رکھتے ہوں گے تب ہی اظہر من الشمس یہ تماشا انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ شام کے وقت محلے کے بچے اپنے اپنے بکرے کی رسی تھامے قافلے کی صورت گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف نوجوان گائے اور بیلوں کی نمائش اور مسابقت میں مصروف ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں اونٹ بھی کسی درخت کے تنے سے بندھا دکھائی دیتا ہے جو بچوں کے لئے خاص تفریح طبع کا باعث ہوتا ہے ورنہ اونٹ کے لئے اماں ابا کو کلفٹن کے ساحل لے جانا پڑتا ہے جہاں اونٹ کے سجے سجائے ہودے میں بیٹھنا بچوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ اونٹ کے نحر کرنے کا طریقہ بھی بکرے اور گائے گرانے سے مختلف ہوتا ہے جو نوجوان اور بچوں کے لئے دلچسپ مشاہدہ ہوتا ہے۔

ہمارے پڑوس میں ایک مذہبی جماعت کے سابق سربراہ کا گھرانا قیام پذیر ہے۔ بم دھماکے میں ان کی شہادت کے بعد جماعت نے ان کے لواحقین کی سرپرستی جاری رکھی ہے اور اب بھی جماعت کی جانب سے مقرر کردہ مسلح گارڈ ان کے گھر کے آگے متعین ہیں۔ ان کے گھر کے آگے ایک گائے اور ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ پاس پڑوس کی گلیوں سے بچوں کے قافلے اونٹ کے درشن کو آتے۔

عید میں ایک دن باقی تھا۔ میں بکرے کے قارونہ میں بھیگی گھاس اور سیاہ موتی دانے جھاڑو سے سمیٹ رہی تھی کہ میاں جی پسینے میں شرابور اندر آئے۔ ان پر نظر پڑتے ہی دل دھک سے رہ گیا۔ بازو خونم خان ہو رہا تھا قمیض اتار کر الگنی پر لٹکایا تو گردن کے پاس لمبے کھرونچے سے بھی خون رستا دکھائی دیا۔ انہوں نے ڈیٹول اور رسی مانگی۔

”اللہ خیر۔ کیا ہوا کیا کسی سے جھگڑا ہو گیا“

”وقت ضائع نہ کرو ڈیٹول والے پانی سے زخم دھو کر سنی پلاسٹ لگا دو اور پھر جلدی سے کوئی موٹی سی رسی لادو۔“

”موٹی رسی؟ وہ کس لئے؟ کہاں کمند ڈالیں گے۔ کیا دن میں ستارے نظر آ گئے ہیں۔“
”تم بھی حرفوں کی بنی ہو۔ میں خود ہی ڈھونڈ لیتا ہوں“

تب ہی پیچھے آنے والے دیور نے بتایا کہ بیل خرید کر لائے ہیں۔ سارے راستے بیل بالکل معصومیت سے سوزوکی میں بیٹھا رہا۔ ذرا جو سرکش طبیعت کی ہوا لگنے دی ہو۔ گھر پہنچ کر ہمارے۔ میاں جی اسے اتارنے کے لئے آگے بڑھے۔ ابھی پائیدان پر پیر دھرا ہی تھا کہ بیل اچھل کر اٹھا ایک دولتی چھ فٹ کے میاں جی کی رانوں پر جھاڑی۔ برچھی جیسے سینگوں سے گردن اور بازو کھرچا اور زقند لگا کر سوزوکی سے اتر یہ جا وہ جا۔ میاں جی چلائے ’پکڑو جانے نہ پائے‘ ۔

مذہبی جماعت کے گارڈ اس کے پیچھے دوڑے۔ محلے کے نوجوان رضاکار بھی ساتھ ہو لئے۔ بیل کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ دو گلیاں ایک سڑک اور بندو خان کی چورنگی ٹاپتا بن قاسم مسجد کے صدر دروازے پر جا کے دم لیا گویا کہ اللہ میاں سے دہائی دینے گیا یو۔ ڈیٹول سے زخم صاف کروا کے جب میاں جی باہر نکلے تو مفرور بیل کا تعاقب کرنے والوں نے انہیں بتایا کہ بیل نے میخوں سے پاؤں زمین میں گاڑ دیے ہیں۔ مجال۔ ہے کہ ہل کے دے۔ میاں جی کا رسہ بھی کسی کام نہ آیا اور بیل ہٹ دھرمی سے بیٹھا جگالی کرتا رہا۔

ابو (سسر) نے مشورہ دیا۔ مذہبی جماعت کے سابق سربراہ کی گائے لے جاکر اس کے برابر بٹھا دی جائے۔ کچھ دیر بعد ونڈہ گائے کو دکھایا جائے گائے کو ونڈا کھلاتے ہوئے واپس لایا جائے بیل خود اس کے پیچھے چلا آئے گا (ونڈہ کھلی اور اناج کا آمیزہ ہوتا ہے ) ۔ اگرچہ مجھے یہ ترکیب خاصی مضحکہ خیز محسوس ہوئی تھی لیکن ہوا ایسا ہی جیسا انہوں نے کہا تھا۔ روز ازل کی طرح نر، مادہ کے اناج سے گریز نہ کر سکنے کی تعزیر بھگتنے کے لئے کھونٹے سے بندھنے چلا آیا۔ اور اگلے دن دالان میں پڑی چٹائی پر من بھر گوشت کی ڈھیری میں تبدیل ہو گیا۔

میرے بکرے کی قربانی اس کے بعد ہوئی۔ مجھ سے قربانی کی دعا پڑھوا کر ابو نے بکرے کے گلے پر چھری پھیری۔ نزع کی تڑپ سے تڑپ کر میں اندر چلی آئی۔ اور اب وہ مٹن کلیجی تلی میں تقسیم ہو کر چٹائی پر دھرا تھا۔ اور اس کی کھال دوسرے سرے پر پڑی تھی۔ یہی کھال میاں جی سے وجہ نزع بنی

انہوں نے کہا بکرے اور بیل کی کھال پڑوسیوں کی مذہبی جماعت کو دیں گے۔ میں نے کہا ”بیل کی کھال پر آپ کا اختیار ہے لیکن بکرے کی کھال میں انہیں نہیں دوں گی۔“

”، تم۔ کیا لسانی جماعت کو دینا چاہتی ہو۔ دیکھو وہ پڑوس میں ہیں بلاوجہ بیر پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ کھالوں کی ملکیت پر شہر میں کیا کچھ ہوتا ہے تم نہیں جانتیں کیا۔“

”میں کسی مذہبی یا لسانی جماعت کو نہیں دینا چاہتی۔ میں رفاہ عامہ کی سماجی تنظیم کو دینا چاہتی ہوں۔ یوں تو ان کے دسترخوان شہر بھر میں ہیں لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا ہے وہ سرکاری اسپتالوں کے احاطے میں پڑے ہوئے سندھ اور بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے آئے مریضوں کے ہمراہیوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کرنا ہے۔ اس کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے۔ گوشت اور کھال میں انہیں دینا چاہتی ہوں۔“

میرے میاں اور ان کے گھر والوں کی کسی مذہبی یا سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں اس لئے تھوڑی سی تکرار سے میاں جی مان گئے۔

”اچھا تم ایک ران بہن کے سسرال کے لئے پیک کردو دوسری میں سجی کے لئے دے آتا ہوں۔“ باقی رشتے داروں کے پیکٹ بنا دو۔

میں نے اس سے بھی اختلاف کیا۔ قربانی کا عمدہ گوشت اپنے اور عزیزوں کے لئے اور غریبوں کے لئے ہڈی چربی اور چھیچھڑے یہ تو قربانی کی اساس نہیں۔ سارا گوشت مکس کر کے تین حصے بنیں گے۔ رشتہ داروں اور گھر کے لئے ویسا ہی گوشت ہوگا جیسا غرباء کے لئے۔

میاں جی مان تو گئے لیکن عورت کی اپنی مرضی چلانے کی جرات سے بد دل ضرور ہوئے۔ انہوں نے اپنے خاندان میں ایسا کاہے کو دیکھا تھا۔ ان کے ہاں کی خواتین کے سارے اختیارات مردوں کے ہاتھ میں ہوتے تھے وہی تمام فیصلے کرتے تھے۔ خواتین نے کبھی اس حق کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ یا شاید جانا ہی نہ تھا۔ ان کی عقل و دانش مند بھاوج کی چپقلش اور ساس بہو کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں تک محدود تھی۔ میاں جی کے سینے میں سلگتی اس برہمی کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ان سے فلاحی تنظیم سے رابطہ کرنے کو کہا۔ جس پر انہوں نے روکھے پن سے کہا ”، خود کرلو“ ،

آشکار پر لکھے فون نمبر پر رابطہ کرنا چاہا تو معلوم ہوا سارا دن تہنیتی پیغامات کے باعث بینڈ ختم ہو چکا ہے۔ جب ان سے موبائل مانگا تو نو عمر لڑکوں کی طرح انکار کر دیا۔ میں نے بڑوں سے شکایت کی تو جیسے وہ تو بھرے بیٹھے تھے

”سارا دن سے تم نے اسے تنگ کیا ہوا ہے ہر بات پر اپنی چلاتی ہو۔ ہمارے ہاں بیویاں ایسے برتاؤ نہیں کرتیں کماتی ہو تو بد لحاظ ہو جاؤ کیا۔“

بہرحال کسی طرح رابطہ ہوا تو ایک اور مشکل آن پڑی۔ تنظیم کا ایک دفتر نمائش پر تھا جو گھر سے زیادہ دور نہ تھا اور مین روڈ پر تھا مگر کھالیں جمع کرنے کے لئے انہوں نے ایم اے جناح روڈ کی بغلی سڑک پر ایک عمارت کے کمپاؤنڈ کا پتہ بتایا۔ رات کے نو بج رہے تھے۔ کاروباری علاقہ ہونے کے باعث یہ علاقہ تعطیل کے دن ویران اور ہر قسم کے اسٹریٹ کرائم کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ میاں جی نے جانے سے انکار کر دیا۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ میاں جی کی کیفیت اس وقت صاحبزادے سے ملتی جلتی تھی جو بکرے کی قربانی کے بعد ملول تھے۔

میاں جی نے اپنی مردانہ آنا کی قربانی تو دے دی تھی مگر دل میں دکھن ضرور تھی۔ میرے لئے یہی بہت تھا کہ میرے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔ میں نے گاڑی نکالی شارع قائدین سے ہوتی ہوئی ایم اے جناح روڈ پر موڑی۔ جامع کلاتھ مارکیٹ سے آگے دائیں جانب مڑی تو سڑک پر لائٹ بھی نہیں تھی۔ تھوڑی سی دقت سے عمارت مل گئی میں نے امانت ان کے سپرد کرتے ہوئے مشکل سے پہنچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا

”ارے آپ فون پر بتا دیتیں ہم گھر سے کلیکٹ کر لیتے“

راحیل خان ، مسقط کی تازہ ترین پوسٹس (تمام دیکھیں)

راحیلہ خان، مسقط کی دیگر تحریریں

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں .
آواز جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں.

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button