
افغانستان کی ہر روز بدلتی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے افغان سرحد بند کر کے مختلف کراسنگ پوائنٹ پر فوج تعینات کر دی ہے ۔ اس ضمن میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر مسلسل پٹرولنگ کی جا رہی ہے، تمام غیر قانونی کراسنگ پوائنٹس کو سیل کر دیا گیا ہے ۔ ہفتہ کو ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ریگولر دستے پاک افغان سرحد پر پٹرولنگ کر رہے ہیں اور بارڈر پر غیر قانونی کراسنگ پوائنٹس کو سیل کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پشمنظر میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ان کی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہیں کیونکہ افغانستان کی حالیہ صورتحال کے باعث وہاں پر دہشت گرد شدید دباءو میں ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ یکم مئی 2021 کے بعد 167دہشت گردی کے حملوں کی اطلاعات پر پاک فوج نے معلومات (آئی بی او)کی بنیاد پر 7ہزار سے زیادہ آپریشنز کئے ہیں جن میں مختلف علاقوں کی تلاشی سمیت دیگر کارروائیاں شامل ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ ہم باریک بینی سے علاقائی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کر رہے ہیں ،ہم افغانستان میں امن و امان کی بحالی کیلئے تمام شراکت داروں کے مابین مذاکرات کے عمل کیلئے ہم نے ہر طرح کے ممکنہ اقدامات کئے ہیں ۔ ہم افغانستان میں امن عمل کے ضامن نہیں ہیں کیونکہ افغانستان کے شراکت دار ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں ، پاکستان میں امن و امان افغانستان کے امن سے منسلک ہے ۔ پاکستان کا یہ کہنا بجا ا ور درست ہے کہ افغانستان کے شراکت دار اس کا خود فیصلہ کریں ۔ پاکستان کو مورد الزام ٹھہر ا کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی رو ترک کرنا ہو گی ۔ گزشتہ دنوں جس طرح افغان صدر نے الزام تراشی کی وہ مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظہر ہے ۔ اسی طرح افغان نائب صدر امراللہ صالح ن ے بھی پاک فضائیہ کے حوالے سے الزام عائد کیا ۔ اس حوالے سے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ انہوں نے پاکستان ایئر فورس پر طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے جو سراسر جھوٹ پر مبنی بیان ہے، انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایئر فورس کی جانب سے اس طرح کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، میں ان کے بیان کو مسترد کرتا ہوں ۔ پاکستان ایک بار نہیں بار ہا کہہ چکا ہے کہ پاکستان کا کوئی پسندیدہ نہیں ہے ،افغانستان کا امن ہی اس کی ترجیح ہے ۔ دوسری طرف انخلا کے بعد پید ہونے والی صورتحال کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ مسلح افواج نے افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں مکمل تیاری کی ہے، اور کسی قسم کے ممکنہ خطرہ کے پیش نظر ہر طرح کے سکیورٹی اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے سکیورٹی رسک کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز، بلوچستان میں دہشت گرد گروپوں کی بحالی اور غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ رابطے وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ، ہمارے پاس بڑے واضح ثبوت ہیں اور ہم نے ان ایجنسیوں کی شناخت کی ہے، حالیہ واقعات بھی اس رسک سے منسلک ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا 90فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور اس کو ایران کی سرحد تک توسیع دی جا رہی ہے، سرحد پر کئی سکیورٹی چیک پوسٹس اور قلعے بھی تعمیر کئے گئے ہیں تاکہ سرحد کی نگرانی کے موثر نظام کو تشکیل دیا جا سکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل افغانستان کیلئے بھی مفید ہے ۔ بارڈر سکیورٹی کے اقدامات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ایف سی کی استعداد کار کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے ۔ پاکستان کے پاس موجود ٹھوس شواہد کی بنیاد پر انہوں نے دو ٹوک الفاظ کہا کہ دہشت گرد گروپوں کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جن کی بھارتی خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ معاونت کر رہی ہے، پاکستان آرمی قومی امن و سلامتی کے خطرات کے خاتمہ کیلئے تیار ہے اور ہم ایسے خطرات کا پیچھا کر ر ہے ہیں ، جب اس طرح کے خطرات کا کامیابی سے پیچھا کیا جائے تو بعض اوقات اموات بھی ہوتی ہیں ، ہمارے آفیسرز فرنٹ لائن سے ان آپریشنز کی سربراہی کر رہے ہیں اور ہم اپنے آفیسرز کی پشت پر کھڑے ہیں اور ان کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔ بلاشبہ ہماری افواج اور تمام سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں بے مثال ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کی قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ سے ہمارے 86ہزار سے زائد معصوم افراد نے اپنی زندگی کی قربانی دی ہے ۔ چاس کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کو 152 ارب ڈالر کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے تاہم مسلح افواج نے 1300 سکیورٹی آپریشنز کے نتیجہ میں دہشت گردوں سے 46 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ کلیر کرایا ہے جس دوران 18 ہزار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضہ میں لیا گیا ہے ۔ ۔ یہ بات درست اور اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ افغانستان میں بھارت کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے افغانستان میں بھاری فنڈنگ کر رکھی ہے تاکہ دہشت گردوں کی جڑیں مضبوط کر کے پاکستان میں عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے،پاکستان نے نومبر 2020 میں ڈوزیئر بھی پیش کئے تھے اور پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کے شواہد عالمی برادری کو پیش کئے تھے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی و معاشی مفادات میں جکڑی عالمی برادری نے نوٹس نہیں لیا ۔ افغانستان بھر میں بھارتی ایجنسی ’را‘ کے تربیتی کیمپ ہیں جہاں پر پاکستان مخالف گروپس کو تربیت فراہم کی جاتی ہے،آج وہ دہشت گرد عناصر امریکہ سے مدد کی اپیلیں کررہے ہیں ۔ بھارت خطہ کا امن و امان خراب کرنے کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے،اس نے افغانستان سے پاکستان کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔