
افغانستان کے مسئلے اورطالبان کو مذاکرات کی میزپرلانے کے لئے پاکستان نے سب سے ز یادہ کاوشیں کی ہیں اس کے باوجود افغانستان معاملے پر پاکستان کوموردالزام ٹھہرایاجاتاہے جو کہ انتہائی غلط بات ہے اورنا انصافی کے مترادف ہے ۔ اس چیز کووزیراعظم نے بھی باورکرایا یہ بات بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان مسئلے کاحل فوجی نہیں سیاسی ہے ۔ آج امریکہ طالبان سے جومذاکرات کرنے جارہاہے وہ بھی وقت کاغلط انتخاب ہے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جب کوئی فاتح بننے جارہاہو تو وہ کبھی بھی کسی دوسرے کی بات کو نہ سنتاہے،نہ تسلیم کرتاہے امریکی اقدامات پرنہ صرف پاکستان بلکہ چین اوردیگرممالک نے بھی تحفظات کاظہار کیایعنی کہ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکہ کی بے وقت کی راگنی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان افغان مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہرممکن ممدومعاون ثابت ہورہاہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے تاشقند میں سنٹرل اینڈ ساءوتھ ایشیا ۔ دوہزار اکیس ریجنل کنیکٹیوٹی، چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کے موقع پرافغان صدر اشرف غنی کے سامنے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں خراب حالات سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوتا ہے ۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کےلئے پاکستان سے زیادہ کسی نے کردار ادا نہیں کیا ۔ پاکستان پر الزامات لگائے جانے سے مجھے مایوسی ہوئی ۔ پاکستان پر الزام نا انصافی ہے ۔ طالبان کو مذاکرات کی دعوت غیر ملکی افواج کے انخلاسے قبل دی جانی چاہیے تھی ۔ سی پیک علاقائی روابط میں بھی اہم کردار ادا کرے گا ۔ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ سی پیک بی ;200;ر ;200;ئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے ۔ ہماری ترجیح افغانستان میں استحکام ہے ۔ افغانستان میں بدامنی کا اثر پاکستان پر بھی ہوتا ہے ۔ انہوں نے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا طالبان کو مذاکرات کی دعوت اس وقت دینی چاہیے تھی جب امریکہ کے سب سے زیادہ فوجی افغانستان میں تھے ۔ اب طالبان کیوں امریکہ کی بات مانیں گے جب افغانستان سے فوجیوں کا انخلا ہورہا ہے ۔ پاکستان افغانستان میں امن اور مصالحت، تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھے گا ۔ ہم افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور تمام متعلقہ بین الاقوامی فریقین کے ساتھ ملکر کام کریں گے تاکہ اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کیا جاسکے ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں شورش سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں گزشتہ 15سال میں پاکستان میں دہشت گردی سے70ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوئے ۔ پاکستان کی معیشت متاثر ہوئی جو اب بحال ہورہی ہے ۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنا غیرمنصفانہ ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ امریکہ نے اس کا فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جو اس کا حل نہیں تھا ۔ افغانستان میں ایک لاکھ 50 ہزار نیٹو فوجیوں کی موجودگی وہ وقت تھا جب طالبان کو مذاکراتی میز پر ;200;نے کی دعوت دی جاتی ۔ اب وہ ہماری بات کیوں مانیں گے جب طالبان سمجھتے ہیں کہ وہ فاتح ہیں ۔ افغانستان میں امن اور سیاسی عمل کو تقویت دینے کے لئے پاکستان، ازبکستان اور تاجکستان مل کر کام کریں گے ۔ پاکستان میں پہلے ہی تین ملین افغان پناہ گزین ہیں اور وہ افغانستان کی کسی صورتحال کے نتیجے میں مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا ۔ وزیر اعظم نے تنازعہ کشمیر اور پاک ۔ بھارت تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے تصفیہ سے پورا خطہ تبدیل ہوگا ۔ دوسری طرف پاکستان نے افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ نے افغان ائیر فورس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ افغانستان نے چمن سیکٹر کی دوسری جانب اپنی سرزمین پر فضائی آپریشن سے آگاہ کیا ۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو اپنی سرزمین پر اقدام کے حق پر مثبت جواب دیا گیا ۔ پاکستان نے اپنے فوجیوں اور آبادی کی حفاظت کےلئے تمام ضروری پیشگی اقدامات کیے ۔ ادھرپاکستان میں تعینات امریکہ کی ناظم الامور اینجلا ایگلر نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی ۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور علاقائی اور افغانستان کی موجودہ سکیورٹی کی صورت حال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر بات چیت کی گئی ۔ چیف آف آرمی سٹاف نے کہا کہ پاکستان دوطرفہ تعلقات کی روایت میں تسلسل کو برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے ۔ امریکہ کے ساتھ دیرپا طویل المیعاد، کثیر الجہتی تعلقات کا خواہاں ہے ۔ امریکی ناظم الامور اینجلا ایگلر نے علاقائی امن و استحکام کے لئے پاکستانی کاوشوں کو سراہا اور پاکستان کی افغان امن عمل کے لئے کاوشوں کو بھی قابل قدر قرار دیا ۔ دوسری جانب ی جی ;200;ئی ایس ;200;ئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز افغانستان میں موجود ہیں ۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل نے میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے ۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان پر در اندازی کے الزامات بے بنیاد ہیں ۔ حقیقت میں دراندازی افغانستان سے ہو رہی ہے ۔ افغانستان میں کسی دھڑے کی حمایت نہیں کر رہے ۔ پاکستان علاقائی سکیورٹی، تجارت اور خطے میں بڑے مقصد کیلئے کام کر رہا ہے ۔ دہشت گردی کے سارے مراکز افغانستان میں موجود ہیں ۔ ہمارے جوانوں کو پاک افغان بارڈر پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ پاکستان نے موقف واضح طورپر پیش کیا ہے ۔ ایسے الزامات لگتے رہے تو حالات بہتر نہیں ہو سکتے ۔ پرامن اور مستحکم افغانستان ہی پاکستان اور دیگر ممالک کے مفاد میں ہے ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں تمام گروپوں میں مذاکرات کے نتیجے میں امن قائم ہو ۔