
لوگ 2017ء میں کاشغر، شنجیانگ میں ایک سکیورٹی چیک پوائنٹ کے پاس سے گزر رہے ہیں جس کے اوپر کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ (© Ng Han Guan/AP Images)
امریکہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کو اپنی فوجی جدید کاری، نگرانی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے امریکہ کی سرمایہ کاری کی منڈیوں کا استحصال کرنے سے روکنے کی کوششوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
9 جولائی کو امریکہ کے محکمہ تجارت نے پی آر سی میں قائم اُن 14 اداروں کو بلیک لسٹ کیا جو چینی حکومت کے ویغروں اور شنجیانگ میں رہنے والے دیگر نسلی اور مذہبی اقلیت کے گروپوں کے ظلم و جبر، اجتماعی حراستوں اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے نگرانی میں مدد کر رہے ہیں۔ ویغروں کی اکثریت مسلمان ہے۔
وزیر تجارت، جینا رومانڈو نے نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “محکمہ تجارت ان اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے سخت اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا عزم کیے ہوئے ہے جو شنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں یا تو مدد کر رہے ہیں یا وہ چین کی فوجی جدید کاری کی عدم استحکام پیدا کرنے والی کوششوں میں تیزی لانے کے لیے امریکی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔”
محکمہ تجارت نے امریکی کمپنیوں کے 20 دیگر اداروں کے ساتھ لین دین پر بھی پابندیاں لگائیں۔ یہ ادارے پی آر سی یا روس کی فوجی جدید کاری کی یا تو مدد کر رہے ہیں یا اِن کے مدد کرنے کا خطرہ ہے اور یا ان کے ایران کو ممنوعہ ٹکنالوجی کی درآمد کرنے میں مدد کرنے کا خطرہ ہے۔ محکمے کی 9 جولائی کی پابندیوں کے ذریعے “اداروں کی فہرست” میں 34 اداروں کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں خصوصی منظوری کے بغیر کمپنیوں کو امریکی سافٹ ویئر، ٹکنالوجی یا دیگر اشیاء نہیں بھجوائی جا سکیں گیں۔

یکم جولالئی کو محکمہ خارجہ نے 2021ء کی انسانی سمگلنگ کی رپورٹ میں بتایا کہ پی آر سی ” نسلی بنیادوں پر نگرانی کرنے اور قومی اور نسلی بنیادوں پر نشانہ بنانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے کے لیے جن جدید ٹکنالوجیوں کا استعمال کرنا جاری رکھے ہوئے ہے ان کا مقصد اقلیتی لوگوں کو محکوم بنانا اور اُن کا استحصال کرنا ہے۔”
ستمبر 2020 میں محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق کا احتیاطی تدابیر سے متعلق ایک رضاکارانہ ہدایت نامہ تیار کیا۔ اس کا مقصد کمپنیوں کے اس خطرے کو کم کرنا ہے کہ غیرملکی حکومتیں اُن کی مصنوعات یا خدمات کا غلط استعمال نہ کر سکیں یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یا زیادتیاں نہ کر سکیں۔
پی آر سی کی نگرانی نے شنجیانگ کو حقیقی معنوں میں ایک کھلی جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر ایک کونے پر کیمرے لگے ہوئے ہیں اور چہروں کی شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر اور دیگر ٹکنالوجیاں زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بیجنگ برما، ایران، وینزویلا، زمبابوے اور دیگر ممالک کی آمرانہ حکومتوں کو نگرانی کرنے والی ٹکنالوجی برآمد کرتا ہے۔
محکمہ تجارت کی پابندیاں صدر بائیڈن کے 3 جون کے اس انتظامی حکم نامے کی تعمیل میں لگائی جا رہی ہیں جس کے ذریعے پی آر سی میں فوجی جدید کاری میں امریکی سرمایہ کاری کو پابندیوں کے دائرہ اختیار میں لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِن پابندیوں کے ذریعے ایسی ٹکنالوجیوں کو بھی روکا گیا ہے جو پی آر سی کی چین اور دیگر ممالک میں نگرانی اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں میں مدد کرتی ہیں۔
3 جون کو صدر بائیڈن نے چین اور دوسری جگہوں پر مذہبی اور نسلی اقلیت کے گروپوں کے اراکین پر جبر کرنے کو پی آر سی کی نگرانی کی ٹکنالوجی کے استعمال کو “عام حالات کے خلاف اور غیرمعمولی” قرار دیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک حقائق نامے میں بتایا گیا ہے، “اں چیلنجوں سے براہ راست نمٹنا بائیڈن انتظامیہ کا قومی سلامتی کے کلیدی مفادات اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے عزم سے مطابقت رکھتا ہے۔”