افغانستانامریکہبین الاقوامیپاکستانپشاورتارکین وطنخارجہ تعلقات

جنٹل مین آپ کی پالیسی کیا ہے؟

افغانستان سے امریکی انخلا کے حوالے سے پورے خطے میں ایک گوں ناگوں کشمکش کا عمل جاری ہے اور امریکی انخلا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بھی شاید پاکستان ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بار بار امریکہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ اپنے پیچھے 90 کی دہائی کی تاریخ نہ دہرائیں۔ مگر جس طرح امریکہ نے راتوں رات بگرام اڈہ خالی کر کے واپسی کی راہ لی ۔ بگرام کے فوجی اڈے سے انخلا کا منظر افغانستان کے طول و عرض میں پھیلتا نظر آ رہا ہے اور اس خلا کو پر کر بھی رہے ہیں تو وہ طالبان جن کی سرکشی کچلنے امریکہ اور نیٹو کی افواج بیس برس پہلے افغانستان پہ حملہ آور ہوئی تھیں۔ 1988 میں جب افغانستان پر افغان مجاہدین اور صدر نجیب اللہ کے مابین جنیوا معاہدہ ہوا تھا تو تب بھی وہی سوال اٹھے تھے جو اب اٹھ رہے ہیں۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد دھرتی کے بیٹے کامریڈ نجیب اللہ تو پھر دو برس تک براجمان رہنے میں کامیاب رہے، افغانی نژاد امریکی صدر اشرف غنی کی حکومت بارے خود پنٹاگون کہہ رہا ہے کہ یہ چھ ماہ گزارنے سے رہی۔

اس تمام تر صورتحال میں اگر  پاکستانی خارجہ پالیسی کو وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یا مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے بیانات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ان میں خودداری کی کھنک، نعروں کا جلال اور جذبے کی فراوانی تو وافر مقدار میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان بیانات سے یہ اخذ کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ پاکستان ہمسایہ ملکوں کے علاوہ دور نزدیک کی بڑی طاقتوں سے کیسے مراسم استوار کرنا چاہتا ہے۔ اور ان تعلقات کے لئے مقررہ اہداف کیسے حاصل کیے جائیں گے۔

پاکستانی قیادت کے پرزور بیانات سن کر یا پڑھ کر یہ احساس بھی فزوں تر ہوتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات استوار کرنا سب اہم ملکوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے امریکہ مجبور ہو کر پاکستانی شرائط پر بات چیت کے لئے آمادہ ہوا تھا، اسی طرح امریکہ سمیت باقی ممالک بھی پاکستانی موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کیوں کہ پاکستان کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ سوچنا چاہیے کہ اس احساس سے جو تصویر بنتی وہ کس حد تک معروضی علاقائی اور عالمی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا اہم ہوگا کہ بین الملکی تعلقات میں پالیسی جذبات اور نعروں کی بجائے درپیش مسائل کے تناظر میں اختیار کی جاتی ہے اور نہایت چابک دستی سے سفارت کاری میں اپنے موقف کے کچھ حصوں کو منوا کر کچھ مراعات دی جاتی ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب خارجہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے سیاسی مجبوریوں اور گیلری کی ضرورتوں کو بنیادی اہمیت نہ دی جائے۔

اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پاکستان کا کردار سب سے اہم ہے مگر بائیڈن انتظامیہ اس کو سنجیدہ لینے پہ تیار نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل بھی جب امریکہ افغانستان سے بھاگا تھا تو سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا تھا اور اس کا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ تاہم مسئلہ پھر بھی یہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اعتماد میں لینےپر تیار نہیں ہے اور پاکستان کی جانب سے بھی کسی واضح خارجہ پالیسی کا نفاذ نظر نہیں آرہا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پاکستان ایک طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت کرتی ہے مگر دوسری طرف ان کی حالت یہ ہے کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی جانب سے خطے کی صورتحال پر بریفنگ کے بعد جب انہوں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کہاکہ جنٹل مین! اب بتاددیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ تو آگے سے جواب ملا کہ آپ اس معاملے میں ہماری مدد کریں مگر ان کا جواب بدستور یہی تھا کہ ہم تو محض پالیسی نافذ کرنے والے ہیں بنانے والے نہیں تو یہی سیاسی جماعتیں اور ان کے حمایتی جو اسٹیبلشمنٹ پرہر وقت یہ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پالیسی میں مداخلت کرتی ہے۔ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

اب ایسی صورتحال میں سیاسی قیادت کی دور اندیشی پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کبھی ایک بیان دیتےدکھائی دیتے ہیں تو کبھی دوسرا مگر فی الوقت کوئی بھی واضح خارجہ پالیسی سامنے نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت کو اپنی کوتاہ نظری کا ماتم کرنا چاہیے اور عسکری قیادت کے ساتھ مل کر ٹھوس پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ آج تک فوج پر تنقید کرنے والی اپوزیشن کی یہ حالت ہے اس کو نہ تو خطے کے سیاسی اور جغرافیائی حالات کا علم ہے اور نہ ہی اسے یہ پتا ہے کہ خطے میں کونسی گریٹ گیم چل رہی ہے۔

اتوار، 11 جولائی 2021

شفقنا اردو

ur.shafaqna.com

پوسٹ جنٹل مین آپ کی پالیسی کیا ہے؟ پہلے شائع ہوا شفقنا اردو نیوز.

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button