– کالم و مضامین –
سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ جب شوکت خانم ہسپتال سو فیصد عوام سے ہسپتال کے لئے چندہ مانگتا ہے تو پھر یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ نوے فیصد عوام کو شوکت خانم ہسپتال سے علاج کئے بغیر رخصت کیا جائے۔
دیر کا رہنے والا ایک غریب شخص آنسوؤں کے ساتھ روتے ہوئے بتانے لگا کہ میں نے گاؤں میں لوگوں سے ڈیڑھ لاکھ روپے قرض لیا اور شوکت خانم ہسپتال پشاور چلا آیا جہاں یہ سارے پیسے ان ٹسٹوں کی نذر ہو گئے جو کسی سرکاری ہسپتال یا پرائیویٹ لیبارٹریوں میں تیس چالیس ہزار روپے پر بھی با آسانی ہو سکتے تھے لیکن ستم بالائے ستم ملاحظہ ہو کہ مجھے ہسپتال میں داخل کرانے یا میرا علاج جاری رکھنے کی بجائے کہیں اور سے علاج کرانے کا مشورہ دے کر رخصت کر دیا گیا سو میں کراہتے ہوئے اور خالی جیب وہاں سے نکلا۔
قریب بیٹھے ہوئے صوابی سے تعلق رکھنے والے سید نبی نامی آدمی کی کہانی اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی تھی
بتایا کہ مجھے گردے کی شدید تکلیف تھی ایک سرکاری ہسپتال گیا اور ٹسٹ کرائے تو پتہ چلا کہ گردے کا کینسر ھے سو اسی ہسپتال میں داخل ہوا اور آپریشن کے ذریعے کینسر زدہ گردہ ہٹا دیا گیا لیکن چند ماہ بعد پتہ چلا کہ کینسر مثانے تک بھی پھیل گیا تھا میں شدید تکلیف میں شوکت خانم ہسپتال پہنچا لیکن میرے فائل پر نظر ڈالتے ہی ایک بے رحمی کے ساتھ کہا گیا کہ آپ کہ آپ چونکہ کہیں اور سے علاج کرا چکے ہیں اس لئیے آپ واپس وہاں چلے جائیں کیونکہ ہم ایسے مریضوں کو نہیں لیتے۔
کینسر سے لڑتے غریب مریضوں کی یہ دلدوز کہانیاں میں پشاور کے ارنم ہسپتال میں سنتا رہا۔
اس ہسپتال کا افتتاح 10 ستمبر 1973 کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اور یہ کینسر کے علاج کا پہلا ہسپتال تھا جو اٹامک انرجی کمیشن کے زیر انتظام سرکاری سطح پر قائم کیا گیا تھا۔
ہسپتال میں بعض مریضوں سے گفتگو کرتے ہوئے تھوڑی دیر میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال کے انتہائی مہنگے علاج سے عاجز یا وہاں سے دھتکارے ہوئے مریضوں کو ارنم ہسپتال ھی کسی ماں کی مانند اپنی بانہوں میں لے لیتا ہے۔ لیکن ارنم ہسپتال کے اپنے وسائل کیا ہیں اور انہیں کون کون سے مسائل درپیش ہیں ؟
اسی سوال کو لےکر میں لگ بھگ تین گھنٹے ہسپتال کے سربراہ سے جونیئر ڈاکٹروں تک اور پیرا میڈک سٹاف سے انتظامی اہلکاروں تک کو کریدتا رہا۔ بہت سے مریضوں سے بھی گفتگو ہوئی اور جب میں ہسپتال سے نکل رہا تھا تو بہت سے چونکا دینے والے سوالات مشاہدات اور تجاویز میرے ذھن پر چھائے ہوئے تھے
2008 میں ارنم ہسپتال کے ملازمین نے مریضوں کی تکالیف اور تنگدستی کو مدنظر رکھتے ہوئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ارنم پیشنٹ ویلفئر سوسائٹی قائم کی۔
بعض مخیر حضرات ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جس سے وہ مریضوں کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ اپنی فارمیسی سے کمپنی ریٹ پر دوائیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر مخیر حضرات مالی مدد کو اس طرف موڑ دیں تو غریب مریضوں کو مزید مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ان مریضوں کی ہے جنہیں شوکت خانم ہسپتال لینے سے انکاری ہوتا ہے اور ان کا آخری آسرا یہی جگہ ہی ہوتا ہے
(اس طرح کے ہسپتال لاہور کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی ہیں سو یہ تجویز ان ہسپتالوں کے حوالے سے بھی ہے۔)
یہ سوال تحقیق کا متقاضی ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کو پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ڈونیشن اکٹھا کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عام سا ٹسٹ الٹرا ساونڈ جو عام مارکیٹ میں چھ سو روپے کا ہوتا ہے وہ شوکت خانم ہسپتال ڈھائی ہزار روپے لےکر کرتا ہے جبکہ سی ٹی سکین عام طور پر پانچ ہزار کا جبکہ شوکت خانم میں سولہ ہزار کا ہوتا ہے۔ اسی طرح کیمو تھراپی ارنم ہسپتال سات ہزار روپے جبکہ شوکت خانم ہسپتال تیس ہزار روپے میں کرتا ہے حالانکہ کیمو تھراپی میں استعمال ہونے والے ڈرگز ایک ہی اور عالمی معیار کے ہوتے ہیں۔
ایک پڑھے لکھے نوجوان مریض نے سوال اٹھایا کہ شوکت خانم ہسپتال کو ہمیشہ حکومت نے لاہور کراچی اور پشاور جیسے شہروں میں مہنگی ترین زمینیں الاٹ کی جبکہ عوام نے بھی ہمیشہ دل کھول کر مالی مدد کی لیکن کیا عوام کو ملنے والے فائدے کا تناسب بھی وہی ہے ؟
پشاور میں شوکت خانم ہسپتال بننے کے باوجود بھی ارنم ہسپتال پر رش کم ہونے کی بجائے مزید کیوں بڑھ گیا ؟ (یہی حال دوسرے شہروں میں بھی ہے۔)
شوکت خانم ہسپتال جب مریض لیتا نہیں تو پھر اپنے ہسپتال میں اس مریض کے مہنگے ٹسٹ کیوں کراتا ہے؟
جب ملک کے ہر باشندے سے شوکت خانم کے لئے چندہ مانگا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تفریق نہیں رکھا جاتا تو پھر مریضوں کا اتنا کڑا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے۔
کیا عوام کے چندے سے چلنے والے کسی خیراتی ادارے کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟ زیادہ سیریس مریض کو جب شوکت خانم جیسا اعلی معیار کا کینسر ہسپتال لینے سے قطعی انکار کرے تو اخلاقی اور انسانی زندگی کے حوالے سے یہ کونسا رویہ ہے؟
کینسر کے لئے قائم کئے گئے ارنم یا دوسرے ہسپتالوں کو شوکت خانم کے معیار کے وسائل اگر فراہم کئے جائیں تو وہ یقینا اس جان لیوا مرض کے مقابل بہترین کارکردگی دکھانے کی اھلیت رکھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان ہسپتالوں اور اس کے تجربہ کار عملے کو مسلسل کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
ایک نوجوان ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ اگر مخیر حضرات اور عوام شوکت خانم ہسپتال کی مانند اپنی مدد کو ارنم یا اس جیسے دوسرے ہسپتالوں کو بھی موڑ دیں تو پورے ملک کے تمام مریضوں کا اعلی ترین علاج مکمل طور پر مفت ہو سکتا ہے۔
شوکت خانم ہسپتال بے شک کینسر کے حوالے سے ایک قابل ستائش ادارہ ہے لیکن خامیوں سے خالی کوئی جگہ نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام خصوصا مخیر حضرات ان ہسپتالوں پر بھی توجہ دیں اور انہیں مدد فراہم کریں جو کینسر کے مرض میں مبتلا ان مریضوں کا آخری سہارا ہوتا ہے جنہیں شوکت خانم ہسپتال لینے سے انکار کرتا ہے یا وہ علاج کی استطاعت نہیں رکھتے۔

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں .
آواز جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں.