– آواز ڈیسک –
امریکہ نے ایک بار پھر اپنی حقیقی آمرانہ ماہیت کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ نے ایران سمیت خطے میں سرگرم استقامتی بلاک کی تشہیراتی قوت سے خوفزدہ ہو کر کئی ویب سائیٹوں پر باپندی عائد کر دی ہے۔ جن ایرانی چینلوں کی ویب سائٹس پر امریکی پابندیاں عائد ہوئی ہیں، ان میں "پریس ٹی وی” اور "العالم” شامل ہیں جبکہ یمن کے "المیسرہ ٹی وی” کی ویب سائٹ کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ نے عراق کے استقامتی میڈیا کو بھی خصوصی طور پر اپنے عتاب کا نشانہ بنایا ہے اور "المعلومہ” اور "کتائب حزب اللہ” پر بھی پابندی لگائی ہے۔ اس کے علاوہ "فلسطین الیوم” "فنا” اور "کوثر” پر بھی امریکی پابندیاں مسلط کر دی گئی ہیں۔ امریکہ کی عدلیہ کی وزارت کے مطابق ایران اور اسلامی مقاومت و استقامت سے تعلق رکھنے والی تقریباً 36 ویب سائٹس پر امریکی قانون کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔
عراق کی مختلف بیس سائٹس پر پابندیوں کا تعلق عراق کے انتخابات سے ہے، امریکہ کے اس اقدام سے آزادی اظہار کے امریکی نعرے کا پول بھی کھل کیا ہے۔ فریڈم آف اسپیچ کا چمپئن بننے والا امریکہ اسلامی مقاومت کی ویب سائٹس سے بولا جانے والا سچ برداشت نہ کرسکا۔ امریکہ اپنے اور اسرائیل کے خلاف حقائق سننے کے لئے تیار نہیں، وہ خطے میں امریکہ کی پے در پے ناکامیوں اور اسرائیل کے زوال کے حقائق سے دنیا بالخصوص اپنے عوام کو بے خبر رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے یہ پابندیاں عائد کرکے آزادی اظہار کے حوالے سے اپنے دہرے معیار کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ امریکہ نے ایک طرف مختلف ویب سائٹّوں پر پابندی عائد کی تو دوسری طرف انسانی حقوق کو بہانہ بنا کر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی مین ایران کے خلاف ایک گمراہ کن رپورٹ پیش کرائی ہے۔
امریکہ اور اس کے حواری انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کے خلاف جو کرتے پھریں، ان کو عالمی ادارے پوچھتے تک نہیں، لیکن ایران کا نام آتے ہی انسانی حقوق کے اداروں کی مردہ رک بھڑک اٹھتی ہے۔ کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، ڈنمارک، امریکہ، جرمنی اور فرانس سمیت کئی ممالک انسانی حقوق کے بارے میں لمبے چوڑے بیان داغتے ہیں، لیکن ان ممالک میں سماجی حقوق کی پامالی، سیاہ فاموں کا قتل، اقلیتوں بالخصوص مسلمان شہریوں کو جبر و تشدد میں مبتلا کرنا، قیدیوں کو شکنجوں میں کسنا اور سرحدوں پر مہاجرین کے ساتھ غیر انسانی سلوک روزمرہ کے اقدامات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یورپ میں تارکین وطن اور بالخصوص مہاجرین کے ساتھ جو رویہ اپنایا جاتا ہے، کیا اسے انسانی حقوق کی پامالی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔؟ امریکہ اور مغربی ممالک کا انسانی حقوق کے حوالے سے دوہرا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ممالک انسانی حقوق کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے لیے اس ہتھیار کو بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کو دو مختلف زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا دوہرا معیار ایک طے شدہ حقیقیت ہے اور یو این او کی حالیہ رپورٹ تعصب پر مبنی ایک سوچی سجمھی سازش ہے، جس کا مقصد مخصوص اہداف حاصل کرنا ہے، لہذا اس سے انسانی حقوق کی کسی طرح کی کوئی خدمت نہیں ہوگی اور نہ ہی اس رپورٹ سے انسانی حقوق پر عمل درآمد میں کوئی پیشرفت ہوسکے گی۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس رپورٹ کے پیچھے اور اس میں لگائےجانے والے الزامات کے پیچھے ایک باقاعدہ ہدف اور ایجنڈا ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار پارسا جعفری اپنے تجزیئے میں لکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کا مسئلہ ایسا موضوع ہے، اگر اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے اور اس کے حوالے سے دوہرے معیارات قائم نہ کیے جائیں، نیز اسے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسانی زندگی میں بہتری کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔
لیکن عصر حاضر میں عملی میدان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اس موضوع کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے انسانی حقوق کی حیثیت کو بری طرح پامال کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کا دعویٰ کرنے والے ممالک میڈیا کے ذریعے سچ اور حقائق کو سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایران سے آپریٹ ہونے والی العالم، پریس ٹی وی اور الکوثر کی ویب سائٹس نیز یمن کی المسیرہ نامی ویب سائٹ پر پابندی ہے۔ انسانی حقوق کے دعویدار ایران کے خلاف اقتصادی دہشت گردی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں بھی اور اب بھی ایران مخالف دہشت گردوں کو اپنے اپنے ممالک میں پناہ دے رکھِی ہے۔ کیا ہزاروں ایرانی شہریوں کے قاتلوں کو یورپی ممالک میں پناہ دینا انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے۔؟
انسانی حقوق کے دعویدار، غاصب صہیونی حکومت جو بچوں کی قاتل حکومت ہے، اس کے انسان دشمن اقدامات پر خاموش رہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیمیں یمن میں انسانی حقوق کی پامالی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن ایران کا نام آتے ہی اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی ادارے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتے ہیں اور رپورٹوں پر رپورٹیں جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں سول اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہدنامہ پر عمل درآمد سے متعلق اپنی چوتھی رپورٹ پیش کی ہے۔ البتہ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کا ماضی گوانتا ناموبے، بلگرام، عراق کے زندانوں اور سی آئی اے کے ٹارچر سیلوں میں بخوبی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور ویب سائٹوں پر حالیہ پابندی سے آزادی اظہار کے حوالے سے امریکی دعووں کو بھی باآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔
…………………….یہ ختم ہو گیا ہے…………………. ۔۔ ۔۔
جملہ حقوق بحق مصنف و ناشرمحفوظ ہیں .
آواز دینی ہم آہنگی، جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف یا ناشر کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں. آپکے عظیم خیالات ہمارے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، لہٰذا ہم نہیں چاہتے کہ برے الفاظ کے چناؤ کی بنا پر ہم انہیں ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیں. امید ہے آپ تہذیب اور اخلاق کا دامن نہیں چھوڑیں گے. اور ہمیں اپنے علم سے مستفید کرتے رہیں گے.