آسٹریلیاامریکہبین الاقوامیتارکین وطنترکیجاپانجرمنیچینیورپ

اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب12 | TRT اردو

وقت کا تعارف، خاموشی،ساکت اور مشکل معلومات،کرہ ارض پر یہ تمام عوامل اپنے اندر مختلف خصوصیات رکھتے ہیں۔  فطرت میں موجود اپنے اندر دھند  اور بادلوںمیں گھرے پہاڑ ،انسان کو قدرت کی شاہکاری کا احساس دلاتے ہیں۔ ایک پہاڑ کا دامن ہم پر یہ  واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہ اس کے مقابلےمیں کتنے چھوٹے ہیں۔ دنیاکے معرض وجود میں آنے سے کچھ ہی عرصے بعد  یہ پہاڑ وجود میں  آئے جن سے انسان کی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ متعدد خداوں کے حامل مذاہب میں پہاڑوں کو مقدس تصور کیا جاتا ہے،آتش فشاں پہاڑوں سے انسان ہمیشہ خوف زدہ رہا اور خود کو ان سے محفوظ رکھنے کی خیرات صدقہ یا خیرات کا سہارا لیتا رہا ۔دنیا  کے یہ پہاڑ مختلف تہذیبوں  اور مذاہب کا گہوارہ رہے۔انسان ان بادلوں  سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑوں کو خدا سے قریب تصور کرتا رہا ہے۔ جہاں پہاڑ نہیں تھے وہاں انسان نے خدا  کے حضور پہنچنے کے لیے زیگورات نامی بلند قلعے بنانا شروع کیے جس طرح سے بابیل کی مثال موجود ہے۔یونانی میتھولوجی میں  اولمپس دیوتاوں کا پہاڑ تھا حتی چین میں پہاڑ کی روح موجود ہونے کا بھی تصور تھا۔جاپان میں یاتری فوجی یاما پہاڑ  جاتے ہیں جو کہ مقدس مانا جاتا ہے۔ حضرت موسی  کے خدا سے ملاقات اور دس احکام لینے  والا مقام بھی کوہ سینا تھا۔مسیحیوں کے مطابق، حضرت عیسی کا صلیب پر چڑھنے کا واقعہ  گولگوتا کی پہاڑی پر رونما ہو تھا جسے دنیا کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔رسول خدا کو پہلی وحی غار حرا میں ملی لہذا یہ  طےہے  پہاروں کو مقدس مانا جانا قدیم وقت سے موجد رہا ہے۔

ترکوں کی ابتدائی روایات میں شامل اورخون  تحاریر میں   اعوتوقان پہاڑ کا ذکر ملتا ہے۔ ایرگینیکون کی داستان میں پہاڑوں میں پوشیدہ لوہا پگھلا کر راستے بنائے اور اس طرح ترک دنیا میں پھیل گئے۔ اناطولیہ  میں پہاڑ افسانوں کا موضوع رہے۔کوہ قاز  سے منسوب پیلی پری کا واقعہ، سبحان پہاڑ  سے جڑا ہرن کا افسانہ یا شاہ نمرود  سے وابستہ کوہ نمرود کا افسانہ ایسا ہے جو دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کوہ آعری    اناطولیہ اور یورپ کا بلند ترین پہاڑ ہے،مشہور سیاح مارکو پولو  نے کہا تھا کہ یہ پہاڑ  سر کرنا نا ممکن ہے جسے دنیا کے مشہور پہاڑوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کوہ آعری ایک افسانوی پہاڑ ہے جس کی چوٹی پر حضرت نوح کو طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی کشتی بھی یہی موجود تھی۔ اس طوفان کی روایت سمیر قوم کے کتبوں اور تین آسمانی ادیان کی کتب میں بھی ملتا ہے حتی میکسیکو اوت آسٹریلیا میں بھی اس طوفان سے متعلق بعض شواہد ملتے ہیں۔

انسان نیکی  کے راستے سے بھٹک گیا تو خدا  کی ناراضگی مول لے  لی اور اس طرح سے طوفان نوح برپا ہوا۔ اس وجہ سے  خدا نے حضرت نوح کو ایک کشتی تعمیر کرتے ہوئے اس میں ضرورت کا سامان رکھوانے اور دنیا کے تمام جانداروں کو جوڑے کی شکل میں اس میں سوار کروانے کا حکم دیا۔حضرت نوح اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں مگر چند اس بات سے اختلاف کرتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں۔جب تمام تیاریاں مکمل ہو جاتی  ہیں توایک طوفان آتا ہے ،چالیس روز تک بارشوں کی وجہ سےپہاڑ اور پتھر سمندروں سے جا ملے اور اس کشتی کے سوا تمام غرق ہو گئے۔
نوح کی کشتی پانچ ماہ تک  سمندر میں رہی اور حکم الہی کے تحت پانی کے اخراج پریہ کشتی پہاڑ پر اترا۔ حضرت نوح کشتی سے اترتے ہیں اور اس پہاڑ کے دامن میں بسیرا کرتے ہیں اس طرح سے دنیا میں زندگی کا آغاز ہوا۔

انسانیت کی مشترکہ روایات پر مبنی یہ پرانی کہانی ہے ۔اور ماہرین حضرت نوح کی کشتی دریافت کرنے کےلیے مصروف ہیں جو کہ اب تک اوجھل ہے۔
دینی   ذرائع  کے تحت، نوح کی کشتی  کی تلاش کے لیے آعری پہاڑ پر پہلی بار  جرمن  ماہر فطرت اور سیاح فریڈرک پیرٹ اس کشتی کی بازیابی میں ناکام ہوئے مگر  اسے اس کی چوٹی سب سے پہلے سر کرنے کا  اعزاز ملا ۔ اس نے اپنی کتاب میں اس علاقے کی ثقافتی و  اقتصادی   اور وہاں کی جنگلی و نباتاتی زندگی کا حوالہ دیا ۔
ستاسی سال بعد روسی پائلٹ  ایک پرواز کے دوران اس کشتی کی باقیات دیکھتا ہے اور آعری  پہاڑ پر تلاش کرتا ہے مگر اس کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔اس دوران دوسری جنگ عظیم چھڑجاتی ہے جس کے دوران  اور بعد میں روسی اور امریکی پائلٹس کشتی کی باقیات کی موجودگی کا دعوی کرتے ہیں۔
سن انیس سو انسٹھ میں میجر الہامی دورو پنار نے علاقے کا نقشہ تیار کیا۔انہوں نے چار  تا ساڑھے چارہزار میٹرکی بلندی سے کھینچی گئی تصاویر کا مشاہدہ کرنے کے دوران نوح کی کشتی سے مشابہہ بعض  چیزوں کااندازہ لگایا۔یہ کوہ آعری پر ایک کشتی سے مشابہہ گڑھا تھا۔ تفصیلی مشاہدے کے لیے ایک فوٹو گرافر تیار ہوتا ہےجہاں وہ ایک پرانے طیارے کی مدد سے بعض تصاویر  کھینچتا ہے جن سے دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے کیونکہ جو کچھ انجیل میں  بتایا گیا ہے کہ  ہو بہو  ان تصاویر میں دکھائی دینے والی چیزوں سے ملتا ہے۔ ان تصاویر کو ترکی کے معروف فوٹو گرافر ارا گولیر کھینچتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ثابت ہوا تو نوح کی کشتی کی دنیا میں پہلی بار تصاویر کھینچنے کا اعزاز مجھے ملتا ہے۔
اس واقعے کے بعد تحقیق شروع ہو جاتی ہے اور  اس کی شکل بالکل ایسی لگتی ہے جیسے کسی انسان نے کشتی بنائی ہو ۔اس بارےمیں تاحال تحقیق ہو رہی ہے کہ آیا یہ ایک کشتی کا ڈھانچہ ہے یا لرزش اراضی کی وجہ سے اس سے مشابہہ کوئی گڑھا سامنے آیا ہوگا۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ نوح کی کشتی کا ڈھانچہ ہے یا ایک انسانی نظر کا دھوکہ ہے جسے اس نے کشتی سمجھ لیا ۔ یہ علاقہ اس وقت  قومی تحفظ میں ہے۔
انسان دو عصروں سے اس کشتی کی تلاش میں ہیں،آج بھی مختلف ممالک سے ماہرین اور ادارے  اس کی تلاش میں مصروف ہیںاور یہ دلچسپی کا موضوع بن رہا ہے مگر انسانی تاریخ کا  یہ معمہ تاحال راز کی طرح خود کو چھپائے ہوئے ہے۔

اناطولیہ کا ایک دیگر پہاڑ کوہ قاف ہے جو کہ  افسانوں،حکمرانوں کے ظلم و ستم اور  ان سے فرار ہونے والوں کی پناہ کا مسکن  اور خزانوں کے متلاشیوں   سمیت اولیا  کا وطن رہا ہے۔ اناطولیہ کا خطہ ،کوہ نمرود،توروس کے پہاڑی سلسلے، کوہ حسن اورنہ جانے کتنے دیگر پہاڑوں کا مسکن ہے مگر کوہ آعری   مختلف موضوع  کی حامل فلموں ،ناولوں،داستانوں اور افسانوں   کی وجہ سے ان تمام میں منفرد اہمیت کا حامل ہے۔

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button