انصافبرطانیہپاکستانتعلیمحقوقشامکالم و مضامینکراچیلاہورمصر

گیلانی: فخر امام ٹو ہو جائے گا

– کالم و مضامین –

گزرے اتوار کی دوپہر تک مجھے کامل یقین تھا کہ یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی نشست پر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس دن کی شام سے مگر پنجابی محاورے والی ”ٹلیاں“ کھڑکنا شروع ہو گئیں۔ پیغام یہ ملا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے شیخ صاحب کو ایوان بالامیں بھیجنا عمران حکومت ہی کی نہیں ریاست پاکستان کی ”مجبوری“ بھی ہے۔ اشاروں کنایوں میں اس کا ذکر بھی کر دیا۔ منگل کی دوپہر لیکن ایک انتہائی ”باخبر“ دوست سے ملاقات ہو گئی۔ وہ مصررہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے عمران حکومت سے وابستہ 16 کے قریب اراکین اسمبلی ”کسی نہ کسی صورت“ حفیظ شیخ کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بدھ کی شام وہ درست ثابت ہو گئے۔

طویل عرصے کے بعد یوسف رضا گیلانی کا کسی انتخابی معرکے کے لئے تیار ہوجانا میرے لئے حیران کن تھا۔ آج سے چند ہفتے قبل پیپلز پارٹی کے جواں سال سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر سے ایک دوست کے ہاں کھانے پر ملاقات ہو گئی۔ اپنے والد مرحوم کے ساتھ میرے تعلق کی وجہ سے مجھے ”انکل“ پکارتے ہیں۔ انتہائی عزت واحترام سے پیش آتے ہیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ اپنی قیادت کو اس امر کی جانب مائل کر رہے ہیں کہ حفیظ شیخ کو سینٹ سے باہر رکھنے کے لئے گیلانی صاحب کو میدان میں اتارا جائے۔ اپنے آئیڈیا کی بابت انہوں نے میری رائے پوچھی تو میں نے فوراً کہا کہ اگر ایسا ہو گیا تو ”فخر امام۔ ٹو“ ہو جائے گا۔

”فخر امام۔ 2“ کی اصطلاح کو سمجھنے کے لئے آپ کو 1985 کی جانب لوٹنا ہوگا۔ آٹھ سال کے طویل مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء نے اس برس ”غیر جماعتی“ انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی بحال کی تھی۔ ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں انتخابی مہم میں خاص سرگرمی نظر نہیں آئی۔ لاریوں میں بیٹھ کر جب میں نے پنجاب اور اس زمانے کے سرحد کے دیہاتوں کا سفر کیا تو دریافت ہوا کہ کئی حلقوں میں کانٹے دار مقابلے ہو رہے ہیں۔

ڈیرے، دھڑے اور برادری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لینے والے انتہائی متحرک نظر آئے۔ ان لوگوں کو یہ گلہ بھی تھا کہ میڈیا والے انہیں جنرل ضیاء کے ”چمچے“ ٹھہرارہے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ خودمختار ہیں۔ اپنے حلقے کے ”عوام کی خدمت“ کے لئے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد قومی اسمبلی کا حلف برداری کے لئے پہلا اجلاس ہوا تو اس کے اختتام کے بعد میری کئی نو منتخب اراکین سے ملاقات ہوئی۔

جنرل ضیاء نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ ان کی نامزد کردہ مجلس شوریٰ کے سپیکر۔ خواجہ صفدر۔ منتخب قومی اسمبلی کے سپیکر بھی ہوں گے۔ نو منتخب اراکین سے گفتگو کے بعد مگر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کسی اور کو سپیکر کے عہدے پر منتخب کرتے ہوئے ”خودمختاری“ کا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہماری سیاست کے حتمی گرو اور میرے بہت ہی مہربان بزرگ چودھری انور عزیز مرحوم نے میرے اندازے سے اتفاق کیا اور اعلان کر دیا کہ مقابلہ ہوگا۔ خواجہ صفدر کو سپیکر منتخب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

چودھری صاحب متحرک ہوئے تو بالآخر سید فخر امام کو خواجہ صاحب سے مقابلے کے لئے تیار کر لیا گیا۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت مصر رہی کہ جنرل ضیاء کے نامزد کردہ امیدوار کو شکست دینا ناممکن ہے۔ چودھری انور عزیز نے مگر دن رات کی مشقت سے بازی پلٹ دی۔ مرحوم کا یہ گناہ جنرل ضیاء کے وفاداروں نے مرتے دم تک معاف نہیں کیا۔

بہرحال یوسف رضا گیلانی صاحب کی جانب لوٹتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت انہیں اسلا م آباد سے سینٹ کا رکن منتخب کروانے کو تیار ہو گئی تب بھی گیلانی صاحب نے ”ہاں“ کہنے میں بہت دیرلگائی۔ ان کی خاموشی نے اخبارات میں یہ قیاس آرائی بھی پھیلائی کہ انہیں سندھ سے سینٹ میں لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بالآخر انہوں نے اسلام آباد کے لئے ”ہاں“ کردی تو میں نے اس کالم میں ان کی ”سینٹ میں انٹری“ کی بڑھک لگادی۔ مذکورہ کالم میں یہ عرض بھی کی تھی کہ گیلانی صاحب ”کچے“ پر پاؤں رکھنے کے عادی نہیں۔ گیلانی خاندان گزشتہ تین نسلوں سے انتخابی معرکوں میں حصہ لے رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو اپنی جیت یقینی نظر نہ آ رہی ہوتی وہ اسلام آباد سے سینٹ کی نشست کے لئے حفیظ شیخ کے مقابلے کے لئے ہرگز تیار نہ ہوتے۔ فرض کیا وہ محض پارلیمان میں لوٹنے کے خواہاں ہوتے تو بآسانی سندھ سے سینٹ کے لئے منتخب ہوسکتے تھے۔

زیرک اور کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے گیلانی صاحب اور ان کی جماعت تحریک انصاف کی نشستوں پر بیٹھے اراکین اسمبلی کے دلوں میں ابلتے غصے سے خوب واقف تھے۔ جن لوگوں کو ”الیکٹ ایبل“ پکارتے ہوئے میڈیا میں بدنام کیا جاتا ہے بنیادی طور پر دھڑے اور ڈیرے کی سیاست کرتے ہیں۔ برطانوی دور سے یہ اپنے علاقوں میں ”معزز“ شمار ہوتے ہیں۔ کمشنر کے دربار میں انہیں کرسی پر بٹھایاجاتا تھا۔ عمران خان صاحب مگر انہیں ”موروثی سیاست“ کے نمائندے تصور کرتے ہوئے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

وزیر اعظم کے احکامات کے تحت ”فقط میرٹ“ کو نگاہ میں رکھنے والے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے فون سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ قومی اسمبلی کے رکن ہوتے ہوئے بھی ایسی ”تحقیر“ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ بات فقط مقامی سطح پر تحقیر تک محدود ہی نہ رہی۔ سینٹ کا انتخابی عمل شروع ہونے سے چند ہفتے قبل تحریک انصاف کی فوج ظفر موج اور میڈیا پر چھائے حق گو افراد نے یکجا ہو کر واویلا مچانا شروع کر دیا کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سینٹ کے انتخاب کے دوران اپنا ووٹ بیچنا چاہتے ہیں۔

کڑے انتخابی مقابلے کے بعد ایوانوں میں آئے افراد کے بارے میں تاثریہ بھی پھیلاگیا کہ وہ ”قیمے والے نان“ کھلاکر پاکستان کے غریب اور سادہ لوح عوام کے ووٹ لیتے ہیں اور منتخب ایوانوں میں درآنے کے بعد انتخاب میں ہوا خرچہ پورا کرنے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی ہڈی یقیناً بہت ڈھیٹ ہوتی ہے۔ بے توقیری کی بھی لیکن کوئی حد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ایسی حدوں سے بے دریغ انداز میں باہر نکلتی چلی گئی۔ انہیں ”سبق سکھانا“ ڈھیٹ ہڈی والے سیاست دانوں نے لازمی شمار کیا۔

یاد رہے کہ بدھ کے روز بھی عمران خان صاحب اور ان کی جماعت سے کامل بے وفائی کا اظہار نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کی نامزد کردہ خاتون امیدوار۔ فوزیہ ارشد۔ کی حمایت میں 174 ووٹ ڈالے گئے۔ ان کی مد مقابل کو 161 ووٹ پڑے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تاہم شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ شیخ صاحب جیکب آباد سے ابھرے ایک ٹیکنوکریٹ ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چہیتے ہیں۔ کئی مرتبہ موجودہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر انتہائی رعونت سے انہوں نے اصرار کیا ہے کہ ان کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں نے معاشیات کے علم کو عالمی طور پر مشہور ہوئی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے ذریعے جانا ہی نہیں۔

جوش خطابت میں ایک دن یہ بھی اعلان کر دیا کہ ان کے ناقد ورلڈ بینک کی عمارت میں سرسری دورے کے قابل بھی نہیں۔ ایسے ”ٹیکنوکریٹ“ کو سینٹ کی نشست کے لئے نامزد کرنے سے احتیاط برتنا چاہیے تھی۔ قومی اسمبلی میں تحریک ا نصاف کی نشستوں پر بیٹھے افراد سے تنہائی میں ملاقات کرو تو وہ پھٹ پڑتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے وہ اپنے حلقوں میں عوام سے ملتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اس مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمہ دار تصور ہوتے ہیں۔

ان کی حمایت میں قیادت کے حکم پر غلاموں کی طرح سرجھکاکر ووٹ ڈالنا تحریک انصاف کے کئی اراکین قومی اسمبلی کے لئے ناممکن ہو گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے ان کے دلوں میں ابلتے غصے کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ”چوروں اور لٹیروں“ کی ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب چینلوں پر مسلسل مذمت فرماتے حق گو مگر اس بنیادی حقیقت کا ادراک نہیں کر پائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

نصرت جاوید کی تازہ ترین پوسٹس (تمام دیکھیں)

نصرت جاوید کی دیگر تحریریں

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں .
آواز جرات اظہار اور آزادی رائے پر یقین رکھتا ہے، مگر اس کے لئے آواز کا کسی بھی نظریے یا بیانئے سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ کو مصنف کی کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار ان سے ذاتی طور پر کریں. اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ہمارے صفحات آپ کے خیالات کے اظہار کے لئے حاضر ہیں. آپ نیچے کمنٹس سیکشن میں یا ہمارے بلاگ سیکشن میں کبھی بھی اپنے الفاظ سمیت تشریف لا سکتے ہیں.

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button