سماجی حقوقکالم و مضامین

اولاد نا فرمان کیوں؟

تحریر: محمد الیاس

اولاد کا نا فرمان ہونا ایک ایسا زہر ہے جو معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، ارینج میرج سے فرار، بھائی بہنوں اور والدین سے بڑھتے فاصلوں نےخاندانی ومعاشرتی زندگی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔یہ کیوں کر ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنا کیوں کر ممکن ہے؟
میں نے اس سوال پر عرصہ دراز تک غور کیا۔میں نے کئی بزرگوں،بوڑھوں سے سوالات کیے۔اپنے گھر،پڑوس، معاشرے وخاندان کے حالات کا جائزہ لیا۔اپنے دوستوں کی ازدواجی،خاندانی اور معاشرتی زندگی کے متعلق معلومات حاصل کیں۔علمائے کرام،واعظین کو سنا،کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان وجوہ کو جاننے کی کوشش کی جو ایک نوجوان کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں اور وہ نافرمانی کا دھبہ اپنی پیشانی پرسجا بیٹھتے ہیں۔
ٹی وی ،فلمیں،ڈرامے،محفلیں،دوست اور دینی تعلیم کی تمام باتیں پرانی اور چھوٹی محسوس ہوتی ہیں
گھر کا ماحول باادب اورصحت مند ہونا چاہیے
ہمارا برتاؤ۔ہم باہر بڑے باعزت،ڈیرے دار،نواب،بااخلاق وباکردارہوتے ہیں
مصنوعی خوراک کی آگ میں پک رہےہے ۔
جب میں لوگوں کے رویوں، لہجوں اور گھریلو زندگیوں کو دیکھتا ہوں۔اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے ہے تو یہ بات کلی طور پر بجا نہیں، کیونکہ میں نے کئی دینی گھرانوں کو آپس میں دست وگریباں دیکھا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب جہالت کا کیا دھرا ہے تو یہ وجہ بھی سو فیصد نہیں پائی جاتی، کیونکہ کئی نوجوان جو دین ودنیا کی تعلیم سےبے بہرا ہوتے ہیں مگر محض اپنی خاندانی روایات و تربیت کی وجہ سے شام کو اپنے والدین کے قدم چوم رہے ہوتے ہیں۔
دراصل ہماری سوچ، ہمارابرتا ؤ،ہمارا رویہ اور ہمارا لہجہ ایسے فیکٹرز ہیں جو کسی کو بھی ہمارا تابع فرمان یا باغی بنا سکتے ہیں۔میں نے ایک مفتی صاحب کی محفل میں شرکت کیِ،وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اولادکو دوست بناؤ،اگر تم دوست نہیں بناؤ گے تو وہ گلی،محلے کے کسی آوارہ،نشئی یا شرابی کو دوست بنالیں گے۔ہمارے ہاں اکثر گھرانوں میں انتہائی سنجیدہ اور گھٹن والا ماحول ہوتا ہے۔نتیجتاًبچےہنسی مذاق اور کھیل کود کا ماحول تلاش کرتےکرتے کسی بے ادب محفل کے جانشین جا ٹھہرتے ہیں،نوکری پیشہ اور پڑھے لکھے گھرانوں میں تو والدین اپنے بچوں کو ٹائم ہی نہیں دے پاتے۔سوئے ہوئے بچوں پہ گھر پہنچتے ہیں اور انہیں سوتا چھوڑکرہی صبح کام پہ نکل جاتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کی تربیت کی یہ ذمہ داری گھر کی نوکرانی یا اسکول کو دینا چاہتے ہیں۔جہاں بچہ اپنی ماں باپ کے چہرے کو ہی ترس جائے،وہاں وہ ان کا ادب کیسے سیکھے گا؟
ہمارے نبی حضرت محمدﷺ سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ بھی ثابت ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھر کا ماحول باادب اورصحت مند ہونا چاہیے،کچھاؤ وگھٹن کے ماحول کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
دوسرا فیکٹر ہے ہمارا برتاؤ۔ہم باہر بڑے باعزت،ڈیرے دار،نواب،بااخلاق وباکردارہوتے ہیں مگر ہمارے اپنے گھر میں ہمارا برتاؤ وہ نہیں ہوتا۔جو عزت ہم باہر کے لوگوں کو دیتے ہیں وہ اپنے گھر کے افراد ،اپنی بیوی یا اولاد کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ ہم مسجد کے مولوی ،اسکول کے استاد یا ڈاکٹر کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر یہی افراد ہمارے اپنے گھر سے تعلق رکھتے ہوں تو ہم ان کا مقام تسلیم کرنے کی بجائے اس کے کردار میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ادب و احترام اور عزت دینا ایک ادھار ہے ، جو دینے کو واپس ضرور ملتا ہے۔
تیسری وجہ ہمارا رویہ ہے۔ہم اپنے بیٹےیا بیٹی کو بچپن سے جوانی تک پالتے پوستے ہیں۔شادی کراتے ہیں مگر شادی کے بعد ہمارا رویہ فوراً بدل جاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرنا، بات بات پہ فرق کرنا ، مطلب سب کچھ بدل جاتاہے،کیا ہم وہ باپ یا وہ ماں نہیں رہتے؟ پھر گھرانے مچھلی منڈی بن جاتے ہیں۔ بیٹوں ،بیٹیوں ،بہوؤں یا ان کی اولادوں میں فرق روا رکھنا کوئی اچھا ، کوئی برا ، کسی کو سینے سے لگا نا اور کسی کو منہ تک نہ لگانا کوئی ہر گناہ کر کے بھی معصوم اور کوئی نیکی کے بعد بھی مجرم، یہ انداز ایک ایسا خاموش زہر ہے جو ہم اپنے رویے سے اپنے خاندان کے اندر خود پھیلا رہے ہیں۔
آخری وجہ ہمارا لہجہ ہے۔ہم باپ ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر حق حاصل ہے۔جو بولیں جیسے بولیں ،گالم گلوچ، مارپیٹ،طعن و تشیعن یعنی اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا ہمیں حق حاصل ہے تو معاف کرنا ! ایسے رویے کی اسلام کی نظر میں ، نہ گھر میں اجازت ہے اور نہ باہر۔محبت کا ایک بول سو تعویذوں سے زیادہ مؤثر ہے۔نیکی جتلانا نیکی کو ضائع کودیتا ہے۔اولاد کو پالنا ،اچھا نام رکھنا ،اچھی تعلیم دینا اور آخر میں ان کی شادی کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری ہمیں ہر حال میں پوری کرنا ہے۔اگر نہیں کریں گے تو دنیا وآخرت میں مجرم ٹھہریں گے، بلکہ اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ رب العزت یہ ذمہ داری ہمیں حسن خوبی سے نبھانے کی توفیق بخشے مگر کسی بھی موڑ پہ اس کو جتلانا اور احسان باور کرانا محبت کی بجائے نفرت پیدا کرتا ہے۔
یاد رکھیں! ناراضگی کی صورت میں اولادا ورخاندان کے معاملے میں فتح وشکست کے خول سے ہمیں باہر نکلنے کی ضرورت ہے اس فتح کے بعد کیا خوشی محسوس ہوگی جس میں ہم جنگ تو جیت جائیں لیکن اپنوں کو ہار جائیں ، ہم معمولی اختلافات کو جو محض رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں اتنا اچھالتے ہیں کہ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ جس دن والدین نے خود کو بادشاہ اور اولاد کو غلام سمجھنا چھوڑ دیا ، آدھی لڑائیاں ختم ہو جائیں گی ۔ اپنی سوچ بڑوں والی بنائیں۔ جس عمر میں مشیر ومددگار کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں اولاد نافرمان ہو جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔ دونوں طرف ضبط وبرداشت کی ضرورت ہے ۔ اپنے رویوں و لہجوں کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ فتنوں کا دور ہے ۔ ہماری اولاد اور ہمارا خاندان ٹی وی ، فلموں ، اور مصنوعی خوراک کی آگ میں پک رہےہے ۔ اس آگ کو بجھانا ہےتو محبت ،پیار ، انصاف اور برداشت کا انداز اپنایا جائے ۔ان شاءاللہ ناراضگیاں رفع ہو جائیں گی اور گھر اور خاندان جنت کا منظر پیش کریں گے۔

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button