افغانستانامریکہبھارتپاکستانخواتینشامعراقفلسطینکراچیکشمیرکوئٹہلبنانلیبیا

جذباتی فیصلے، انا پرستی، اندھی عقیدت اور ذاتی مفاد ات سقوط ڈھاکا کا سبب بنے – Urdu News – Today News

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) جماعت ِ اسلامی پاکستان کے” سیکر ٹری جنرل امیر العظیم” نے”سقوط ِ ڈھاکا کے اسباب کیا تھے” کے بارے میں جسارت سے گفتگو میںکہا ہے کہ “سقوط ِ ڈھاکا کے وقت البدر اور الشمس “نے یہ پیغام دیا کہ مسلم ممالک کی بقا اور سلامتی ریاست پر نہیں چھوڑی جاسکتی ہے دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں گزشتہ 30برسوں کے دوران ریاستوںنے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامنے ہتھیارڈالے لیکن عوام نے ایسا کر نے سے یکسر انکار کر دیااگر” البدر اور الشمس” نے یہ پیغام نہ دیا ہوتا کہ “مسلم ممالک کی بقا اور سلامتی صرف ریاست پر چھوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو کافروں کے رحم و کر م پر چھوڑ دیں یہی وجہ ہے کہ سقوط ِ ڈھاکاــ” کے بعد افغانستان ،عراق ،شام، لیبیا ، لبنان اور فلسطین اور کشمیر میں بھی سقوط مسلم ہو چکا ہو تا لیکن اس کے بر عکس آج اسلامی ممالک میں ریاست کے ہتھیار ڈالے جانے کے باوجود عوام کفروظلم کے خلاف جہا د میں مصروف ہیں ۔” البدر اور الشمس” نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو پیغام دیا ہے کہ “ریاست اگر عوام کو عزت کی زندگی سے محروم کر ے تومسلمانوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ مرنے کے لیے اپنی پسند کی شہادت کا انتخاب کر یں” سقوط ڈھاکا ایک قومی سانحہ ہے اور ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، یحییٰ خان اور عوام اولین ذمے دار ہیں۔ اس کے علا وہ رشوت، بدعنوانی، عوام پر ظلم، پلاٹوں اور بنگلوں پر سیاست اور ملک کوقرض کی دلدل میں پھنسانے کا آخر کار وہی انجام ہوتا ہے جو بنگلا دیش میں ہوا اور اسی کا خدشہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور عدم مفاہمت کی صورتحال سے یحییٰ خان نے فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی سازش تیار کی۔ اس کی وجہ سے ملک میں بے یقینی کی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کے لوگوںکو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا‘‘ عوام نے اخلاقی انحطاط اور بد عنوان لوگوں کو ملک پر حکمرانی کا حق دیا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ حکمرانوں کی آپس کی جنگ نے غیروں کو فائدہ اُٹھانے کا موقع دیا۔ ذاتی مفاد کے چکر میں قومی مفاد کا خون ہوا جس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس دور میں معاملے کی حساسیت کو کسی نے نہیں سمجھا، جذباتی فیصلوں، انا پرستی، اندھی عقیدت اور ذاتی مفاد کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا۔نائب امیر ِجماعتِ اسلامی لیا قت بلوچ نے کہا کہ ملک کے آئین سے کھلواڑ کر نے والوں نے حالات تباہ کیے جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،1970ء کے انتخابات میں جس طرح دھاند لی، بدعنوانی کا بازار گرم کیا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ دھاندلی سے کامیاب ہونے والی پارٹی کو اقتدار دینے کے بجائے ” ذوالفقار علی بھٹو ، اور یحییٰ خان کی اقتدار کی ہوس نے،شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار سے دور کرنے کی سازش شروع کر دی اور سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ان کے ان ناپاک منصوبوں کی ملک کو کس قدر بھاری قیمت ادا کر نی پڑے گی ۔ وائس آف امریکا کے معروف صحافی اصفر امام نے کہا کہ “سقوط ڈھاکا” پر ہر سال گفتگو اور ٹاک شوز ہوتے ہیں کہ اس سانحے کا اصل کردار کون تھا؟ فوج کا کیا کردار رہا ؟ کس کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا؟ جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟ بیرونی دباؤ تھا یا اندرونی سازشیں تھیں؟ اس سانحے کے اسباب کیا تھے؟ وجوہات کیا تھیں؟ وغیرہ وغیرہ، وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں۔ اگرغیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو اس کی صرف اور صرف 2 بنیادی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی وجہ آپس کی لڑائی۔ اور دوسری وجہ سول وفوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذاتی مفاد۔ ہر صاحب فہم وبصیرت شخص اس بات کا اقرار کرے گا کہ بنیادی وجوہات یہی 2 ہیں۔ باقی جتنی بھی وجوہات ہیں، وہ سب انہی کے تحت آتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں 3 کردار سامنے آتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی۔ یہ تینوں کردار اپنے اپنے طور پر مفادات کی جنگ بنگالیوں کا خون بہا کر لڑتے رہے۔ اندرا گاندھی اکثر کہا کرتی تھیں کہ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کر کے بنگلادیش بنایا تھا۔ اس سانحے میں غیروں کی سازش اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ اپنوں کے گھناؤنے چہرے اور کردار سامنے آتے ہیں اور آج بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہاں صرف کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا تاریخ وحقائق سے بد دیانتی ہوگی۔پاسبان پاکستان پارٹی کے سربراہ اقبال ہاشمی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دنیا بھر میں ملکی سر حدوں کی سلامتی کی ذمے داری صرف افواج پر ہوتی ہے اسی لیے یہ کہنا کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے میں صرف سیاسی قیادت کاہاتھ ہے بہت حد تک درست نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کے اختلافات ہمیشہ ہوتے ہیں جیسا کہ آج بھی ہیں لیکن آج افواج پاکستان کے سربراہ یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ حکومت کا ساتھ دیں اور وہ کسی حد تک حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی طرزِ عمل مجیب الرحمان کے ساتھ بھی ہونا ضروری تھا ۔انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسباب یہی ہیں کہ اکثریتی پارٹی کو اقتدار دینے کے بجائے ریاست ایسے لوگوں سے مذاکرات کر رہی تھی جن کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے مذکرات کرنے کے بجائے ریاست کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی پارٹی” عوامی لیگ” کو اقتدار دینا چاہیے تھا جس کے بعد بنگلادیش بنانے کا بھوت مجیب الرحمن کے دماغ سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا اور وہ خاموش ہو کر بیٹھ جاتا انہوںنے مزید کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ پاکستانی فوج نے بنگالیوں پر ظلم کیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مکتی باہنی نے پاکستانیوں کو بہت بے رحمی سے قتل کیا اور خواتین کو بے آبرو بھی کیا اور ان کو اپنے ساتھ نہ جانے کہاں لے گئی جن کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔
سقوط ڈھاکا

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button