انسانی حقوقانصافبرابری کے حقوقبرطانیہپاکستانتعلیمحقوقسعودی عربکراچی

اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا۔فیضان عارف

قوتِ برداشت دوطرح کی ہوتی ہے ایک وہ جس کی وجہ سے انسان مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔  بھوک، پیاس اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محرومی، موسموں کی شدت، خطرناک بیماریوں کی تکلیف اور صدمے برداشت کرلیتا ہے۔ حق تلفی اور ظلم سہتا ہے اور نا انصافی پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ دوسری قوتِ برداشت اپنے سے مختلف انسانوں کے رنگ، نسل، مسلک، مذہب، زبان اور ثقافت کو قبول اور تسلیم کرنا ہے۔ مشرق اور مغرب میں قوتِ برداشت کے پیمانے اور معیار مختلف ہیں۔ برطانیہ ایک ایسا ملٹی کلچرل یعنی کثیرالثقافتی ملک ہے جہاں دنیا بھر کے درجنوں مذاہب، ثقافتوں اور تہذیبوں کے لوگ آباد ہیں جو نہ صرف مختلف زبانیں بولتے ہیں بلکہ اپنی منفرد اقدار کے ساتھ اس ملک میں خوشحال اور آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں انگریزوں کی قوتِ برداشت  قابلِ تعریف ہے وہ نہ صرف اِن مذاہب اور ثقافتوں کو تسلیم اور قبول کرتے ہیں بلکہ انہیں برطانوی معاشرے کے کثیر الثقافتی حُسن کا حصہ قرار دیتے ہیں اور انہیں پنپنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں سوا چھ کروڑ آبادی پر مشتمل یونائیٹڈ کنگڈم میں تقریباً8فیصد ایشیائی، 4 فیصد سیاہ فام اور 5فیصد سے کم دیگر اقلیتوں کے لوگ آباد ہیں برطانیہ میں 60فیصد عیسائی،5 فیصد مسلمان،2.5ہندو اور 0.5 فیصد یہودی، 26فیصد کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں

برطانیہ میں 88 فیصد آبادی انگریز ہے۔
اس ملک میں لوگوں کی اکثریت یہاں پر آباد اقلیتوں کے برابری کے حقوق کا احترام کرتی ہے یہاں نسلی تعصب سے نمٹنے کے لیے قوانین بہت مؤثر ہیں یہاں بچوں کو پرائمری سکول کی تعلیم کے دوران ہی دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے بارے میں پڑھایا اور متعارف کرایا جاتا ہے۔ انگریزوں میں ظلم، نا انصافی اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محرومی کے خلاف قوتِ برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔میں جب مشرق و مغرب کے اس معاشرتی تضاد پر غور کرتا ہوں تو حیران ہوکر سوچتا ہوں پاکستان اور مسلمان ممالک کے لوگوں کی اکثریت بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محرومی، ظلم اور ناانصافی کو کیوں برداشت کرلیتی ہے شاید وہ اسے اللہ کی رضا سمجھتی ہے اور اپنی زندگی کی مشکلات، مسائل اور مصیبتوں پر صبر کر کے اس کی جزا کے لئے آخرت کی زندگی کا انتظار کرتی ہے اس معاملے میں ان کی قوتِ برداشت واقعی حیران کن ہے جبکہ اپنے سے مختلف عقیدے، مسلک، مذہب، رنگ نسل اور زبان و ثقافت کے لوگوں کے لیے ان کی قوتِ برداشت ناقابلِ یقین حد تک کم ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تعصب کی جڑیں اور زیادہ گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ماضی قریب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امام بارگاہوں اور مزارات پر خود کش حملے، مندروں اور گرجا گھروں میں دہشت گردی، کراچی میں مہاجروں اور غیر مہاجروں کے درمیان تصادم اسی عدم برداشت کے روّیے کا شاخسانہ ہے۔ بظاہر تو دنیا بھر کے مسلمان اخوت کی رسی کو تھامے ہوئے ہیں لیکن اگرآپ صرف مڈل ایسٹ کے ممالک میں مقامی عرب لوگوں کے غیر عرب مسلمانوں سے سلوک اور رویے کے بارے میں جانتے ہوں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ مسلمان رنگ و نسل کے ضمن میں کس قدر شدید تعصب کا شکار ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر کے مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان ظلم،جبر، نا انصافی، عدم مساوات کے خلاف نبردآزما رہنے اور معاشی بدعنوانی کے قبول نہ کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر معاملات اس کے برعکس ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم معاشروں میں قوتِ برداشت کا یہی فرق ہے جس کی وجہ سے وہ ترقی اور خوشحالی کی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہیں جبکہ ہم گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل اور مشکلات کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ حضور نبی کریمؐ، خاتم النبیینؐ نے اپنی امت کو سب سے پہلے علم کی روشنی عطا کی جس کے نتیجے میں آپؐ کے پیروکار ایک ایسے شعور سے سرفراز ہوئے جس نے ظلم، نا انصافی اور تعصب کے اندھیروں کو دور کیا اور مساوات کا ایسا لازوال پیغام دیا جس کی بنیاد رنگ و نسل کی بجائے تقویٰ اور کردار پر تھی انسانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ قوموں اور ملکوں کا عروج وزوال صرف اور صرف علم اور تعلیم سے مشروط ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان علم کے رستے پر چلتے رہے عروج کی منزلیں اُن کا مقدر بنتی رہیں، میڈیکل سائنس، ریاضی، فلکیات، آرکیٹیکچراور دیگر شعبوں میں مسلمانوں نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے اُن کا اعتراف اہلِ مغرب ہمیشہ کرتے رہے۔ مذہبی تعلیم ہمیں متوازن اور اچھا انسانی بناتی ہے جبکہ غیر مذہبی علم ہمیں نئے امکانات اور ترقی کے رستے پر لے جاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں ہمارے بہت سے مسلمان دانشور اور مذہبی رہنما، اہلِ مغرب کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ِان غیر مسلم ممالک نے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے اپنی خوشحالی کا نظام کشید کیا ہے، سوشل ویلفیئر سسٹم ہو یا نظام عدل و انصاف، رنگ و نسل سے بالاتر مساوات کے قوانین ہوں یا انسانی حقوق کا تحفظ اہل مغرب نے یہ سب اسلام کی تعلیمات سے مستعار لیا ہے۔ اگر ایساہی ہے تو وہ کون سی رکاوٹ ہے کہ جو ہمیں ان تعلیمات پر عمل کرنے سے روکتی ہے؟ حالانکہ علم کو مومن کی کھوئی ہوئی میراث قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت کس قدر حیران کن ہے کہ آج دنیا بھر میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد قرانِ کریم کے تراجم پڑھ کر روشنی حاصل کررہی ہے اور ہم ہیں کہ اسے اپنے لئے ایک مکمل ضابطہئ حیات تسلیم کرنے کے باوجود صرف اس کی تلاوت کرتے اور چوم کر جزدان میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں اس کے ترجمے کو پڑھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی بجائے ہم نے صرف اس کی تلاوت کو اپنے لئے کارِثواب سمجھ لیا ہے اور اسی کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والا ہر شخص اگر اس مقدس ضابطہئ حیات کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور اس کی تعلیمات پر غور کرنا شروع کر دے تو یقینا اُسے کسی اور کی پیروی کی ضرورت نہیں رہے گی اللہ اور اس کے رسول خاتم النبیینﷺ کی تعلیمات ہی اس کے لیے کافی ہوں گی۔ آج کے حالات میں ہم اگر مشرق و مغرب کے زوال و عروج کا موازنہ کریں تو ایک حقیقت بہت واضح ہو کر ہمارے سامنے آئے گی اور وہ ہے ترجیحات کا تعین۔ مسلمان ممالک کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کی  ترجیحات صرف اور صرف اپنے اختیار و اقتدار کا تحفظ اور ہرجائز و ناجائز ذریعے سے اپنے مالی وسائل میں اضافہ بلکہ بے حساب اضافہ کرنا ہے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کبھی اُن کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی جبکہ مغربی اور غیر مسلم ممالک کے اربابِ اختیار کی ترجیحات میں اپنے ملکوں کے عوام کے لئے بہترین تعلیم و تربیت اولین ترجیح ہے جس کے بعد بنیادی ضروریاتِ زندگی کی ہر ایک کے لئے فراہمی، انصاف اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اہل مغرب نے اس حقیقت کو جان لیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم وتربیت سے ہی ذمہ دار شہریوں پر مبنی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ معلوم نہیں ہم مسلمانوں کی ترجیحات کب درست ہوں گی اور ہم کب روشنی اور اندھیرے میں تمیز کرنے کے قابل ہوسکیں گے؟ ہمارے لوگوں کی حالت اورکیفیت بھی تعلیم وتربیت کے فقدان کی وجہ سے عجیب ہوچکی ہے جن معاملات پر انہیں صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے وہاں وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور جہاں انہیں خاموش رہنا چاہیئے وہاں جذباتی ہو کر شور مچاتے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہم سب کو غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین ضابطہئ حیات ہے مگر ہماری زندگیاں اتنی بے ضابطہ علم ا ور برکت سے محروم کیوں ہیں؟

بیدلؔ لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا

بیدلؔ حیدری

مزید دکھائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button